کشمیر: ہڑتال سے ترنگا یاترا تک

مانا کہ اب ہڑتال کی نہ کہیں سے کوئی کال آتی ہے اور نہ کسی کو اس کا انتظار ہی رہتا ہے، لیکن چار سال کی خاموشی کے بعد بخشی سٹیڈیم کی بھیڑ اور ترنگا یاترا ایک نئی سمت کا اشارہ ضرور دیتی ہے۔

انڈیا کے 76ویں یوم آزادی کی تقریبات سے قبل 12 اگست 2023 کو احمد آباد میں انڈین پرچم کے رنگوں سے سجے انجمن اسلام اسکول میں طلبا انڈین پرچم لہرا رہے ہیں۔ (اے ایف پی)

بارہ مولا کے محمد شفیق نے 1995 میں سرحد پار کی تھی، جہاں وہ مسلح تحریک کے لیے اسحلہ اور تربیت حاصل کرنے کے کچھ عرصے بعد وادی میں سرگرم عمل رہے۔ شفیق فوراً ہی مسلح تحریک میں دھڑبندی اور درجنوں نئی تنظیموں کے معرض وجود میں آنے سے بد ظن ہو گئے۔ ایک بار پھر سرحد پار کر دی مگر ایک نئے ارادے کے ساتھ۔

مظفر آباد سے جرمنی پہنچے اور گذشتہ 20 برسوں سے وہاں آباد ہیں۔ کٹر پاکستان نواز ہونے کے باوجود وہ اب پاکستان کے کٹر مخالف بن گئے ہیں۔

یہ تحریر آپ کالم نگار کی زبانی یہاں سن بھی سکتے ہیں:

کشمیر کے مختلف اضلاع میں 15 اگست کی یوم آزادی کی ترنگا یاترا میں ہزاروں لوگوں کے مجمع کو دیکھ کر اب کی بار نہ سٹپٹائے اور نہ ایسا کرنے پر کشمیریوں کے خلاف غداری کا فتویٰ جاری کیا۔

میں نے شفیق سے پوچھا کہ کیا آپ نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا جیسا کہ بعض کشمیریوں نے انڈیا کے یوم آزادی میں حصہ لینے سے اس نئی سوچ کا عندیہ دیا ہے؟

’کشمیریوں کے پاس سمجھوتہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ جتنا ظلم انڈیا نے کیا اُس سے زیادہ پاکستان نے کیا، جس پر سے پردہ اُٹھانا ہو گا۔ روزانہ کی ہلاکتوں، جنسی زیادتیوں اور گھروں کو بموں سے اُڑانے سے لوگ اتنے دل برداشتہ ہو چکے ہیں کہ اب اُن کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں رہا۔ جس ملک کے لیے ہم نے بربادی کا راستہ اپنایا تھا اس نے نہ صرف ہمیں سر راہ چھوڑ دیا بلکہ اب اُس کا خود کا وجود خطرے میں نظر آ رہا ہے۔ ہماری ایک چھوٹی سی قوم گذشتہ 70 برسوں میں بری طرح پس چکی ہے۔ اب ہم سب زندہ رہنے کا بہانہ تلاش کر رہے ہیں،‘ شفیق نے ایک ہی سانس میں دل کی بھڑاس نکالی۔

انڈیا کے یوم آزادی پر جموں و کشمیر میں چار سال قبل تک ہمیشہ ہڑتال کی کال پر مکمل شٹ ڈاون رہا ہے۔ بخشی سٹیڈیم کی جانب اکثر لوگ دیکھنا تک گوراہ نہیں کرتے تھے، جہاں یوم آذادی کی سرکاری تقریب منائی جاتی ہے، مگر اس ہفتے یوم آزادی کے موقعے پر اتنے لوگوں نے پریڈ کی تقریب میں شرکت کی کہ بیشتر کو بیٹھنے کے لیے جگہ بھی نہیں ملی۔

قومی دھارے سے وابستہ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں، کارکنوں اور سرکاری نوکری کرنے والے تقریباً پانچ لاکھ افراد نے اپنے گھروں کی چھتوں پر وزیراعظم مودی کی اپیل پر لبیک کہہ کر ترنگا لہرایا، جبکہ ضلع صدر مقامات پر ہزاروں ملازمین، طلبہ اور پارٹی کارکنوں نے ترنگا یاترا میں پہلی بار جوش و خروش سے حصہ لیا۔

ایک سرکاری افسر کے مطابق ’کافی دیر بعد کشمیریوں کو  کھلی ہوا میں باہر جانے اور تفریح کرنے کا موقعہ ملا۔ زیادہ تر لوگ گھروں سے باہر آنے کے لیے بہانہ تلاش کر رہے تھے تو اس سے اچھا موقع کہاں ملتا کہ بغیر تشدد کے وہ پہلی بار راستوں پر ہجوم کی شکل میں چل رہے ہیں، جہاں اکثر بم دھماکے ہوتے رہتے تھے، بخشی سٹیڈیم میں تل بھرنے کو جگہ نہیں تھی جہاں 20 ہزار افراد کے لئے گنجایش تھی۔‘

کیا لوگ آزادی کو بھول کر اب انڈیا نواز بن گئے ہیں جیسا کہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی دعویٰ کرتی ہے؟ یا پھر ترنگا یاترا میں بھرپور شمولیت ایک مجبوری کے تحت ہوئی؟

ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کے لیے میں نے کئی کشمیریوں سے بات کی جو اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرنے پر راضی ہوئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نٹی پورہ کے عادل کہتے ہیں کہ بیشتر لوگوں کا ذہن بدل گیا ہے اور وہ مین سٹریم کی سوچ کو اپنا رہے ہیں۔ بی جے پی مین سٹریم جماعتوں میں سرفہرست ہے، جس میں لوگ شامل ہو رہے ہیں۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ جب مین سٹریم کو اپنانا ہی ہے تو مقامی جماعتوں کے بجائے بی جے پی یا کانگریس کو کیوں نہ اپنایا جائے، جن کے ساتھ مقامی پارٹیاں بعد میں ہمیشہ سودے بازی کرکے ہمارا استحصال کرتی آئیں ہیں، ماضی میں پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے بی جے پی کا الیکشن میں بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی تھی، لیکن بعد میں اس پارٹی کی گود میں بیٹھ گئیں، جب اقتدار ہاتھ سے جاتا دکھائی دیا۔‘

پوہو پلوامہ کے رفیق احمد کا خیال ہے کہ اکثر کشمیری انڈیا مخالف نہیں ہیں مگر انہیں انڈیا نواز بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ 70 برس کے سیاسی استحصال اور 30 برس کی انسانی حقوق کی پامالیوں کی داستان بھلانے نہیں دے گی۔ وقتی طور ہر کوئی خود کو بچانے کے لیے حربے استعمال کرتا ہے مگر دل سے انڈیا کو قبول کرنا ابھی کافی مشکل ہے، آزادی کا جذبہ بیشتر دلوں میں گہرا ہے۔‘

مگر ماور ہندواڑہ کے غلام رسول کہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات نے اصل میں کشمیریوں کو کافی مایوس اور بے بس کر دیا ہے۔ وہاں کے حکمرانوں کے بارے میں عام تاثر ہے کہ جو اپنی قوم، اثاثوں اور وقار کو گروی رکھ سکتے ہیں وہ ہماری جدوجہد آزادی کے لیے سنجیدہ نہیں ہو سکتے۔ عوام میں شدید غم و غصہ ہے، جس کے ردعمل کے طور پر ترنگا یاترا میں عوام کے بڑے حصے نے شمولیت اختیار کی ہے، انڈیا کشمیریوں کے دلوں سے پاکستان کو نکالنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔‘

مانا کہ اب ہڑتال کی نہ کہیں سے کوئی کال آتی ہے اور نہ کسی کو اس کا انتظار ہی رہتا ہے، لیکن چار سال کی خاموشی کے بعد بخشی سٹیڈیم کی بھیڑ اور ترنگا یاترا ایک نئی سمت کا اشارہ ضرور دیتی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ