انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دو بڑی یونیورسٹیوں نے بغیر کسی وضاحت کے دو کشمیری شہرت یافتہ مصنفین کے کام کو نصاب سے خارج کر دیا۔
انڈین نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ کے مطابق یونیورسٹی آف کشمیر (یو او کے) نے، جس کا شمار وادی کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے، کشمیری نژاد امریکی شاعر آغا شاہد علی کی تین نظموں اور مصنف اور صحافی بشارت پیر کی یادداشتوں کو انگریزی کے پوسٹ گریجویٹ پروگرام کے نصاب سے خارج کر دیا۔
نصاب میں سے نکالی گئی آغا شاہد علی کی نظموں میں ’پوسٹ کارڈ فرام کشمیر‘، ’ان عربی‘ اور ’دی لاسٹ سیفرون‘ اور بشارت پیر کی ’کرفیوڈ نائٹ‘ یونیورسٹی میں ماسٹرز آف آرٹس (انگلش) کورس کے تیسرے سمسٹر میں پڑھائی جاتی تھیں۔
یونیورسٹی کے ایک اہلکار نے دی وائر کو بتایا کہ ’یہ کام اس سال کے بعد سے نصاب کا حصہ نہیں رہیں گے۔‘
دی وائر نے یونیورسٹی کی وائس چانسلر پروفیسر نیلوفر خان کا مؤقف لینے کے لیے انہیں فون کیا تو انہوں نے ’میٹنگ میں‘ ہونے کا عذر بنا کر واپسی پر جواب دینے کا وعدہ کیا لیکن ان کی طرف سے جوابی کال موصول نہیں ہوئی۔
حکام نے بتایا کہ شاہد کی دو نظموں، ’میں آدھی رات کو نئی دہلی سے کشمیر دیکھ رہا ہوں‘ اور ’کال می اسماعیل ٹونائٹ‘ کو بند کرنے کا اسی طرح کا فیصلہ کلسٹر یونیورسٹی سری نگر (سی یو ایس) نے لیا ہے۔
’میں آدھی رات کو نئی دہلی سے کشمیر دیکھ رہا ہوں‘ 90 کی دہائی کے اوائل میں مسلح شورش شروع ہونے کے بعد سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے لوگوں کو درپیش جدوجہد کی سب سے نمایاں دریافتوں میں سے ایک ہے۔
اس نظم میں تشدد کے مسائل، ’گولیوں سے پھٹی ہوئی لاشیں‘ اور ’کرفیو والی راتیں‘ شامل ہیں، جو شورش کے عروج کے دنوں میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں زندگی کا موضوع تھے۔
یہ دونوں نظمیں کلسٹر یونیورسٹی سری نگر میں انٹیگریٹیڈ ماسٹرز اِن انگلش پروگرام کے تیسرے سمسٹر میں پڑھائی جاتی ہیں۔
اس پروگرام میں جن دیگر شاعروں کے شاہکار پڑھائے جاتے ہیں، ان میں اردو کے شاعر فیض احمد فیض بھی شامل ہیں۔
کلسٹر یونیورسٹی سری نگر کے وائس چانسلر پروفیسر قیوم حسین سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
یونیورسٹی کے ایک سابق ماہر تعلیم نے کہا ’شاہد ایک سیکولر شاعر تھے جن کا دل کشمیر کے ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کے لیے درد اور غم سے بھرا ہوا تھا۔‘
لندن میں مقیم کشمیری مصنف اور مشہور ناول نگار مرزا وحید نے کہا کہ دونوں مصنفین کو ہٹانے کا فیصلہ اس خیال کو ’تقویت‘ دیتا ہے کہ جموں و کشمیر کو ’انتہائی مخالف دانش ور اور سوچ مخالف‘ انتظامیہ چلا رہی ہے۔
جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا یونیورسٹی کے چانسلر اور ڈی فیکٹو ہیڈ نے کہا: ’یہ ایک خوف ناک اور مذموم فیصلہ ہے، جو ’نیا کشمیر‘ بنانے کے وسیع تر دباؤ کا حصہ ہے جس کا مطلب ہے تاریخ کو مٹا دینا کہ ہم اپنی تاریخ، اپنے سیاسی اور ثقافتی ورثے، اپنے شاعروں کو بھول جائیں۔ یہ یادداشت کے خلاف جنگ ہے۔‘
آغا شاہد علی
آغا شاہد علی انگریزی میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے کشمیری ادیبوں میں سے ایک ہیں اور ان کا شعری مجموعہ ’رومز آر نیور فنش‘ 2001 میں امریکی مقابلے نیشنل بک ایوارڈ کے لیے فائنلسٹ تھا۔
نئی دہلی میں پیدا ہونے والے آغا شاہد علی نے امریکہ میں پرورش پائی جہاں 2001 میں 52 سال کی عمر میں دماغ کے کینسر کی وجہ سے ان کا انتقال ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہد یونیورسٹی آف کشمیر کے سابق طالب علم بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انہوں نے دہلی یونیورسٹی، پرنسٹن یونیورسٹی، ہیملٹن کالج اور دوسرے نامور اداروں میں تدریسی فرائض سرانجام دیے۔
امریکی شاعری کے بڑے مجموعے ’دا امریکن الفابیٹس: 25 کنٹمپریری پوئٹس‘ میں شاہد کو ’دوسری جنگ عظیم کے بعد پیدا ہونے والے غیر معمولی شاعروں میں سے ایک‘ کے طور پر بیان کیا گیا۔
مشہور مصنف امیتاو گھوش نے شاہد کی موت کے بعد شائع ہونے والی کتاب میں اپنے کشمیری دوست شاہد کو خوب خراج تحسین پیش کیا۔
گھوش کی یہ کتاب سینٹرل بورڈ آف سکول ایجوکیشن کے 11ویں جماعت کے نصاب کا حصہ ہے جو ملک بھر کے 27,000 سے زیادہ سکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
بشارت پیر
دی وائر کے مطابق بشارت پیر کی کرفیوڈ نائٹ کو تشدد زدہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں پروان چڑھنے کی ایک گہری ذاتی اور اہم یادداشت، کو ہمالیائی خطے میں تین دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری تنازعات کی ناقابل فراموش تصویر کھینچنے کے لیے تنقیدی پذیرائی حاصل ہوئی۔
مصنف خوشونت سنگھ نے کرفیوڈ نائٹ کو ’ایک بے دردی سے ایمان دار اور گہری تکلیف پہنچانے والا‘ اکاؤنٹ قرار دیا تھا، جبکہ دی گارڈین نے کہا تھا کہ یہ ’کشمیر تنازعے کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیاسی بیان بازی کے دائرے سے نکال کر کشمیریوں کی زندگیوں میں لے آتا ہے۔‘