سکھر پولیس نے رانی پور میں مبینہ تشدد سے مرنے والی کمسن ملازمہ فاطمہ کی قبر پر پولیس پہرے سے متعلق سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ عدالت کو قبر کشائی کی درخواست دینے کے بعد پولیس کو قانوناً مذکورہ قبر پر پہرا لگانا پڑتا ہے۔
ڈی آئی جی سکھر ریجن کے ترجمان غلام حسین ڈاہری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا : ’پولیس جب بھی کسی کے قتل کی تفتیش یا پوسٹ مارٹم کے لیے قبرکشائی کی درخواست عدالت کو دیتی ہے تو پولیس قانونی طورپرپابند ہے کہ اس قبر پر اس وقت تک پہرے کے لیے اہلکار تعینات کرے جب تک پوسٹ مارٹم نہ ہوجائے۔‘
ضلع خیرپور کے شہر رانی پور میں پیری مریدی کے کام سے منسلک پیر اسد شاہ کی حویلی کے بیڈ روم میں مبینہ تشدد سے کمسن گھریلو ملازمہ 10 سالہ فاطمہ پھرڑو جان سے گئی تھیں۔
چند روز قبل سوشل میڈیا پر مذکورہ بچی کے فرش پر تکلیف سے لوٹ پوٹ ہونے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد رانی پور پولیس نے فاطمہ کی والدہ شبانہ پھرڑو کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے پیر اسد شاہ کو گرفتار کرلیا تھا، جب کہ مقدمے میں نامزد ان کی اہلیہ حنا عرف سونیا شاہ نے مقامی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کر لی ہے۔
سکھر کی مقامی عدالت نے گذشتہ روز گرفتار مرکزی ملزم اسد شاہ کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔
رانی پور پولیس نے جرم چھپانے اور غفلت برتنے کے الزام میں معطل ایس ایچ او امیر چانگ اور بچی کی موت طبعی قرار دینے والے ڈاکٹر عبدالفتح میمن کو بھی ہراست میں لیا تھا۔ دونوں افراد کے نام مقدمے میں نامزد نہیں تھے۔
سوشل میڈیا پر رات کے وقت میں ایک قبر پر دو پولیس اہلکاروں اور ایک سول کپڑے پہنے شخص کی تصاویر ’قبر پر پہرا انوکھی بات‘ جیسی عبارات کے ساتھ شیئر کی جا رہی ہیں۔
بعض سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ بااثر پیر کے حواری قبر کشائی کا سن کر اسے کھود سکتے تھے اور اسی لیے قبر پر پولیس تعینات کی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ دوسرے سماجی رہنما پولیس پہرے کو یہ کہہ کر کہ ’انہوں نے حکام کو قبر پر پولیس اہلکار تعینات کرنے کی درخواست کی‘ اپنا کارنامہ قرار دے رہے ہیں۔
غلام حسین ڈاہری نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا: ’یہ ایک معمول ہے کہ قبر کشائی والی ہر قبر پر پہرا دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ تو ہائی پروفائل کیس ہے، مگر عام معمولی قتل میں بھی قبر کشائی کے فیصلے کے بعد پولیس اہلکار مقرر کیے جاتے ہیں۔‘
رانی پور پولیس کی درخواست پر سیشن کورٹ نے فاطمہ کی قبر کھولنے کی اجازت دی تھی۔
غلام حسین ڈاہری کے مطابق سیشن جج نوشہرو فیروز نے قبر کشائی کی اجازت دیتے ہوئے کنڈیارو شہر کے سول جج اینڈ مجسٹریٹ ٹو کو ہدایت کی کہ وہ اپنی نگرانی میں قبر کشائی کرائیں
’اب اگلے مرحلے میں مجسٹریٹ ڈاکٹروں کی ٹیم کی تشکیل کے لیے صوبائی محکمہ صحت کو مراسلہ لکھیں گے اور اس کے بعد قبر کشائی کی تاریخ مقرر کی جائے گی۔‘
غلام حسین ڈاہری کے مطابق : ’عام طور پر ڈاکٹرز قبر کشائی کے بعد قبرستان میں ہی پوسٹ مارٹم کرتے ہیں، تاہم لاش کو ہسپتال لے جانے یا نہ لے جانے کا فیصلہ ڈاکٹر ہی کرتے ہیں۔‘