مجھے اپنے ملک سے محبت ہے۔ آپ کو بھی ہو گی۔ یقیناً یوم آزادی پر بچپن سے لے کر اب تک آپ بھی ملی نغمے جھوم جھوم کے گاتے اور سنتے چلے آئے ہوں گے۔
وطن کی خاطر قربان ہو جانے کا جذبہ ابھی بھی اتنا ہی توانا ہو گا جتنا بچپن میں تھا۔ یہ اتنا ہی قدرتی ہے جتنا کوئی بھی جذبہ ہو سکتا ہے، اسی لیے تو جب کوئی ہم سے پوچھتا تھا کہ بڑے ہو کر کیا بنو گے تو ہم کہتے تھے ٹیچر، ڈاکٹر، پائلٹ، پولیس والا یا فوجی۔
لیکن ان سب میں کہیں بھی یہ بات نہیں آتی تھی کہ میں بڑا ہو کر ملک سے باہر جاؤں گا اور وہاں سیٹل ہو جاؤں گا۔
ایسا کبھی لگتا ہی نہیں تھا کہ ایسا بھی سوچنا پڑے گا۔ بلکہ اس وقت تو یہ یقین بھی ہوتا تھا کہ جہاں جس گھر میں، جس محلے میں یا شہر میں پیدا ہوئے ہیں یہیں ساری عمر رہیں گے اور یہیں مریں گے۔
زندگی میں سب سے پہلی حیرت کا سامنا تب ہوتا ہے جب وہ گھر، محلہ یا شہر چھوڑنا پڑ جائے۔ کتنا ہی عرصہ تو پرانی جگہ کی عادتیں نہیں جاتیں اور نئی جگہ ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے۔ پھر پوری عمر کئی ایسی ہجرتوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے جن میں سے اکثر من چاہی نہیں ہوتیں۔ زیادہ تر تلاش معاش ہی دربدر لیے پھرتی ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ لیکن اپنے پہلے گھر کی یاد کبھی دل سے نہیں جاتی۔
اب سوال یہ ہے کہ جب اپنا گھر اپنی جگہ اور شہر اس قدر عزیز ہوتے ہیں تو کوئی کیوں انہیں چھوڑ جاتا ہے؟ گاؤں کی یاد میں صفحے کالے کرنے والے گاؤں واپس جا کر بس کیوں نہیں جاتے؟ وطن کی یاد میں آنسو بہانے والے وطن سے جاتے ہی کیوں ہیں۔
یہ اور ایسے بہت سے سوال ذہن میں کلبلاتے ہیں لیکن پوچھے اس لیے نہیں جاتے کہ ان کے جواب ہم بھی جانتے ہیں۔
کوئی چھوٹے شہر سے بڑے شہر کی طرف سفر اس لیے کرتا ہے کہ چھوٹے شہروں میں روزگار نہیں ملتا، سہولیات ویسی نہیں ہوتیں، تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، روزگار اور لائف سٹائل جو بڑے شہروں کا خاصا ہیں وہ چھوٹے علاقوں میں میسر نہیں۔
اس نقل مکانی کو روکنے کے لیے کبھی کسی بھی دور کی حکومت کی ترجیحات میں چھوٹے علاقوں کی ترقی شامل نہیں ہوتی۔
اسی وجہ سے بڑے شہر اپنی اوقات سے زیادہ آبادی کو سنبھالے ہونے کی وجہ سے بے ڈھنگے پن سے پھیلتے جا رہے ہیں۔ زرعی زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی نذر ہوتی جا رہی ہیں۔ پینے کا صاف پانی، ہسپتالوں میں صحت کی سہولیات اور تعلیمی اداروں میں گنجائش سے زیادہ طالب علم، بے روزگاری، جرائم کا بڑھنا اور بہت سے ایسے مسائل جو مس مینیجمنٹ کی وجہ سے جنم لیتے ہیں ان کی روک تھام کے لیے کوئی حکومت، کوئی انتظامی ادارے اور پالیسی میکرز متوجہ نہیں ہوتے۔
ملک کی حالت دگر گوں ہوتی جا رہی ہے۔ ہر شعبہ بےلگام ہے، جس کے پاس پیسہ ہے وہ ہر طرح کی سہولت حاصل کر لیتا ہے جس کے پاس نہیں ہے وہ اپنے بجلی کے بل کے ہاتھوں پریشان ہو کر خودکشی کرنے کی حد تک چلا جاتا ہے۔
ایسے میں قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر جانے کی کوشش کرنے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ بھی ملک کی کرتا دھرتا طاقتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
اگر انہیں یہ لگتا ہے کہ یہ حب الوطنی کے نام پر لوگوں کو یہاں باندھے رکھیں گے اور خود ملک کے اندر اور باہر اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگیاں عیاشی میں بسر کرتے اور کرواتے رہیں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔
سوشل میڈیا نے اس نسل کو اور کچھ سکھایا سمجھایا ہو یا نہ ہو، یہ ضرور بتا دیا ہے کہ ہمارا ملک قیادت کے فقدان کا ہمیشہ سے شکار رہا ہے اور آئندہ بھی جو حالات ہیں اس میں کوئی بہتری نہیں آنے والی۔
کرپشن، رشوت، سیاسی عدم استحکام اور انتہائی تیزی سے خراب سے خراب تر ہوتی ہوئی ملک کی مجموعی معاشی حالت اب ان سے ڈھکی چھپی نہیں، تو وہ کیوں نہ اپنے گھر کو اپنے وطن کو چھوڑ کر کسی ایسے دیس کا رخ کریں جہاں اتنی محنت کہ جتنی وہ یہاں اپنے ملک میں کرتے ہیں، اس کے بدلے میں انہیں نسبتاً محفوظ، آزاد اور مستحکم معاشرہ زندگی گزارنے کے لیے ملتا ہو؟
ایسے میں اس طرح کے بھاشن دینا کہ ’گھر کی خاطر سو دکھ سہہ لیں، گھر تو آخر اپنا ہے، بےسود ہے کہ معاشی طور پر خوشحالی جس جگہ سے میسر ہو انسان وہیں رہنے کے جتن بھی کرتا ہے اور اسے اپنا گھر بھی سمجھنے لگتا ہے۔
آپ لاکھ کہیں کہ انسان سماجی جانور ہے میں کہوں گی کہ دراصل انسان معاشی جانور ہے۔
اس لیے ملک کے منتظمو، مہربانی کر کے اس وطن کو رہنے اور جینے کے قابل رہنے دو، ایسا نہ ہو کہ یہاں صرف آپ کی زمینیں، کارخانے اور محل رہ جائیں۔
باقی ملک کے لوگ بھوک، جہالت، غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں مر جائیں یا وطن چھوڑ جائیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔