ابھرتی ہوئی معیشتوں کے نمائندہ تجارتی اور اقتصادی فورم ’برکس‘ کا سمٹ حال ہی میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں اختتام پذیر ہوا، جس کے فیصلوں، وسعت اور اثرات کی گونج دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے۔
برکس کے 15ویں سمٹ میں نئے متوقع عالمی نظام سے متعلق جاری کیے جانے والے اعلامیے میں ’ابھرتی ہوئی معاشی منڈیوں اور ترقی پذیر ملکوں کو کثیر جہتی بین الاقوامی فورمز میں زیادہ سے زیادہ نمائندگی دینے پر زور دیا گیا تاکہ یہ ملک اپنے دائروں میں اہم کردار ادا کر سکیں۔‘
اعلامیے میں تاسیس کے بعد سے پہلے پانچ رکنی ’برکس‘ فورم میں چھ نئے ملکوں کو تنظیم کا رکن بنانے کا فیصلہ بھی سامنے آیا۔ ان ملکوں میں مسلم دنیا کے اہم مرکز سعودی عرب کے علاوہ متحدہ عرب امارات، ایران، مصر، ارجنٹینا اور ایتھوپیا شامل ہوں گے۔
چھ نئے ملکوں کی شمولیت کے بعد ’برکس‘ کے ابھرتی ہوئی معیشتوں کے ایک طاقتور بلاک بن کر ابھرنے کا امکان بڑھ گیا ہے، جس میں تقریباً نصف دنیا کی آبادی کی نمائندگی موجود ہے۔ فورم میں شامل ہونے والے نئے ملک دنیا کی تیل کی نصف ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
’برکس‘ اسی رفتار سے آگے بڑھتی رہی تو وسعت پذیر یہ تنظیم جلد ہی کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، برطانیہ اور امریکہ پر مشتمل ترقی یافتہ ملکوں کے ہمزاد فورم جی سیون کے پر کاٹ سکتی ہے۔
’برکس‘ کی نئی توسیع کے بعد اس فورم میں روس، چین اور انڈیا جیسے تین جوہری طاقت کے حامل ملک، جبکہ مشرق وسطیٰ میں تیل پیدا کرنے والے تین ممالک سعودی عرب، ایران اور متحدہ عرب امارات اور اہم سٹرٹیجک مقامات پر واقع افریقی اور عرب ممالک، جن میں مصر اور ایتھوپیا شامل ہو جائیں گے۔
نیز لاطینی امریکہ میں واقع ارجنٹینا کی شمولیت سونے پہ سہاگے کا کام کر رہی ہے۔
شنید ہے کہ ’برکس‘ کی اگلی توسیع میں شمولیت کے خواہاں الجزائر، انڈونیشیا، قزاقستان، نائجیریا، ترکی، ویت نام اور پاکستان جیسے اہم ملک ٹوکن لیے ہاتھ میں بیٹھے ہیں۔ ایسی صورت میں ’برکس‘ توانائی، آبادی، جی ڈی پی بڑھوتری، عسکری جوہری صلاحیت اور سٹریٹیجک جغرافیائی محل وقوع رکھنے والے دنیا کے غیر مغربی ملکوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم بننے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔
توسیع کے درپیش مرحلے کے بعد ’برکس‘ امکانی طور پر یقیناً اپنے لیے کوئی نیا نام تجویز کرے گا، تاہم موجودہ ارکان کی تعداد کے تناظر میں جی سیون فورم کے ساتھ تقابلی جائزے کی خاطر اس کالم میں ہم ’برکس‘ کو ’جی الیون‘ کا نام دے رہے ہیں۔
اگلے برس کے آغاز سے روبعمل لائی جانے والی وسعت کے بعد جی الیون بغیر مغربی ملکوں کی شمولیت کے، جی 20 سے مشابہ فورم بن جائے گا۔ اندرونی حالات اور عالمی سیاست کی حرکیات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ گلوبل ویسٹ اور دنیا کے باقی حصوں سے تال میل کے لیے مشہور جی 20 فورم امکانی طور پر اپنی قدر ومنزلت کھو سکتا ہے۔
روایتی طور پر گلوبل ویسٹ اور ان کے ترجمان ذرائع ابلاغ نے ’برکس‘ فورم کی خامیوں اور اس کے رکن ملکوں میں پائی جانے والی اندرونی کشیدگی کو ہمیشہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کا ’برکس‘ سے متعلق رویہ بتاتا ہے کہ وہ اسے ایک غیر مربوط، کمزور اور نخیف ونزار معاشی کلب سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔
’برکس‘ سے متعلق مغربی دنیا کا انتہائی خراب نقطہ نظر اس بات کا بھی غماز ہے کہ وہ اسے بھان متی کا ایک غیر حقیقی کنبہ خیال کرتے ہیں جو نامناسب متبادل عالمی گورنس کا نظام متعارف کروانے میں کوشاں ہے۔
باالفاظ دیگر مغربی دنیا سمجھتی ہے کہ ‘برکس‘ امریکی قیادت میں چلنے والے بلا شرکت غیرے ورلڈ آرڈر کے ضوابط کے مقابلے میں کثیر جہتی اور غیر متعین اہداف حاصل کرنے کی ایک ناتجربہ کار اور اناڑی کوشش ہے۔
کسی حد تک مغربی دنیا کی مذکورہ رائے میرٹ پر درست بھی معلوم ہوتی ہے کیونکہ ’برکس‘ معروضی حالات میں باہمی ربط وضبط، مشاورت اور اقدامات کے طریقہ کار سے متعلق کوئی بڑا دعویٰ نہیں کر سکتا کیونکہ قرائن بتاتے ہیں کہ جی سیون، نیٹو، یورپی یونین اور AUKUS جیسے پلیٹ فارمز کو کامیابی سے چلا کر گلوبل ویسٹ نے گورننس کے محاذ پر اپنی برتری ثابت کی ہے۔
’برکس‘ نے گلوبل گورننس معاملات میں اپنا حصہ بٹانے میں قدرے تاخیر سے شمولیت اختیار کی۔ یہ میدان کئی دہائیوں سے امریکی قیادت میں مغربی دنیا کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بنا ہوا ہے۔ ’برکس‘ سے متعلق مغربی دنیا کے خیالات دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ابھرتی معیشتوں کے وسعت پذیر فورم سے کتنے خائف ہیں۔
’برکس‘ کی صفوں میں شامل حالیہ ارکان اور پیش آمدہ ممالک یقیناً اگلے مرحلے پر اپنی معیشتوں پر ڈالر کی اجارہ داری کو ختم کرانے کے لیے میسر امکانات پر غور کر سکتے ہیں، یہ بات بھی امریکہ کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔ سوویت یونین کی تحلیل اور سرد جنگ کے خاتمے پر ملنے والی غیر معمولی کامیابی کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ٹھنڈا کر کے کھایا ہوتا تو ’برکس‘ کا ظہور کبھی ممکن نہ ہوتا۔
تین دہائیوں سے گلوبل ویسٹ نے انسانیت کو کئی طویل جنگوں میں جھونک رکھا ہے جس کے باعث بین الاقوامی قانون کا لبادہ تار تار ہے۔ ترقی کے زعم میں گلوبل ویسٹ کی یکطرفہ پابندیاں، ڈالر کو بطور ہتھیار اور منافقانہ میکرو اکنامک ایڈجسٹمنٹ منصوبے اور حد سے زیادہ پرجوش ’گرین ٹزانزیشن رولز‘ کو نمایاں دوہرے معیار کے ساتھ نافذ کرنے کی کوششوں نے دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔
جی سیون میں شامل رکن ملکوں نے جاپان کے فوکوشیما جوہری پلانٹ سے نکلنے والے تابکاری مواد کے حامل 1.3ملین میڑک ٹن تابکاری ذرات ملے پانی کو بحر اوقیانوس میں گرانے پر جو چپ سادھ رکھی ہے، وہ ان کے دوہرے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’برکس‘ کا عروج گلوبل ویسٹ کی باقی دنیا سے متعلق متعصب پالیسیوں کے خلاف نفرت کا اظہار ہے، جسے مغربی دنیا ابھی سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ ایک روشن حقیقت کو مغرب مخالف مہم میں اندھا دھند شمولیت کا نام دے کر آنکھیں بند کر لینا دانشمندی نہیں۔ اس پیش رفت کو واشنگٹن کے یک قطبی دور اور استعمار کی دیرنیہ پالیسیوں کے خلاف وقتی ابال سمجھنے والے احمقوں کی جنت میں بستے ہیں۔
خود فریبی میں مبتلا مغرب، باقی دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ عالمی نظام اس وقت جمہوری اور مطلق العنان طرز حکومتوں کے درمیان محاذ آرائی کے نکتہ عروج پر پہنچ چکا ہے، جس کا اظہار ’آپ ہمارے ساتھ ہیں، یا خلاف ہیں‘ جیسی بڑھکوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
گلوبل ویسٹ کی سیاسی قیادت ابھی تک سرد جنگ کے واہمے سے نکل نہیں سکی اور فی الوقت عالمی سیاست کو اسی روایتی عینک سے دیکھ کر ’چِل ماحول‘ کو انجوائے کرنے میں مصروف ہے۔
’برکس‘ میں چین اور روس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، انڈیا کا کردار بھی روز بروز نمایاں ہو رہا ہے۔ برکس سمٹ کے موقع پر انڈیا کے چاند پر اترنے کی خبر نے اس کردار کو چار چاند لگا دیے۔
گلوبل ویسٹ میں جو کردار امریکہ یک وتنہا ادا کرنا چاہتا ہے، ’برکس‘ میں شامل ماسکو اور بیجنگ ایسی چوہدراہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے، بلکہ فورم کے فیصلے اتفاق رائے سے کرنے کے حق میں ہیں۔ اس طرزِ فکر کے یقیناً منفی پہلو بھی ہیں، جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
توسیع پذیر ’برکس‘ فورم میں فوجی پہلو انتہائی خام نوعیت کا ہے، تاہم اس سے یہ بات اخذ نہیں کی جا سکتی کہ رکن ملکوں کے درمیان کوآرڈی نیشن سے ’سب اچھا‘ کی صدا آتی ہے۔ فی الوقت ’برکس‘ کے رکن ملک امریکہ ولندن کے کلیئرنگ ہاؤسز اور امریکی مالیاتی نظام کو تج کر ڈالر کی جکڑ بندیوں سے آزاد مالیاتی نظام بنانے کی سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔
آنے والے دنوں میں یہ پیش رفت ڈالر کو بطور ہتھیار استعمال کرنے والوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بن سکتی ہے۔
روس مغربی مالیاتی سرکٹ سے پہلے ہی باہر نکالا جا چکا ہے۔ چین بھی اس کے نقش قدم پر چلنے کے لیے پر تول رہا ہے۔ ’برکس‘ ملکوں کی مشترکہ کرنسی سے متعلق بات فی الحال دور کی کوڑی لگتی ہے تاہم فورم کے رکن ممالک کی اپنی اپنی کرنسی میں باہمی تجارت کا راستہ ہر لمحہ موجود ہے۔
ادھر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکی ٹریژری بانڈز کو فروخت کر کے جلد سے جلد امریکی حصار سے نکلنے کی کوششوں میں ہیں۔ توانائی کی عالمی تجارت اور امریکی مالیاتی بالا دستی کی نشانی پیڑو ڈالر کا نشہ بھی اترنے لگا ہے۔ روس سونے کے مقابلے میں متعین کردہ اپنی روبل کرنسی کی قیمت کو تیل فروخت کرنے کے لیے قبول کر رہا ہے جبکہ چین توانائی کی ضرورت پورے کرنے کے لیے خلیجی ملکوں کو اپنی مقامی کرنسی میں ادائیگی کی بات کر رہا ہے۔
روس اور وینزویلا کے ہارڈ کرنسی ریزروز منجمد کر کے امریکہ نے وہی کیا جیسے عام شہری اپنے بینک سے رقم نکلوانے جائے اور بینک اس کی جمع بونچی نکلوانے کی درخواست مسترد کر دے۔
امسال جون میں امریکہ کے سب سے بڑے بینک جے پی مورگن نے خبردار کیا ’کہ ڈی ڈالرائزیشن کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں۔‘ امریکی ڈالر 1971 سے عالمی مالیاتی نظام پر چھایا ہوا ہے۔ یہ برتری امریکی وزیر خارجہ ہنری کیسنجر اور سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے درمیان طے پانے والے معاہدے کا نتیجہ تھی۔
لیکن آج اوپیک پلس میں روس اور سعودی عرب تیل کی عالمی پیداوار کا کوٹہ مقرر کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر رہے ہیں۔ پیڑو ڈالر سے دوسری متبادل کرنسیوں میں تیل کی خرید وفروخت کی باتیں چل نکلی ہیں، جس کے ڈالر کی ساکھ پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ایسے میں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ڈالر سے جان چھڑانے کی ریت امریکی اقتصادی برتری کے خواب کو دھڑام سے زمین بوس کر سکتی ہے۔ یہی روایت گرین انرجی تک بڑھ سکتی ہے کیونکہ اس کے لیے درکار خام مال اور تیاری کے لیے درکار صلاحتیں وسعت پذیر ’برکس‘ بلاک کے رکن ملکوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
’برکس‘ اور اس کے رکن ممالک توانائی کی تجارت اور ادائیگیوں کے ایک ایسے حساس دوراہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں کہ جو جلد یا بدیر نئے مانیٹری سسٹم Bretton Woods III کی شکل میں ظہور پذیر ہو سکتا ہے، جس سے عالمی توانائی کی تجارت اور مالیاتی سیاست نیا روپ اختیار کر سکتی ہے۔
امریکی ڈالر راتوں رات تو اپنی قدر نہیں کھو سکتا، تاہم واشنگٹن کو موجودہ صورت حال پر نظر رکھنی چاہیے۔ مستقل میں امریکہ کو اپنی کرنسی بطور ہتھیار استعمال کرنے سے متعلق محتاط رہنا ہو گا۔
مغربی ملکوں کے بینکوں میں روس اور وینزویلا کے ہارڈ کرنسی ریزرو کو منجمد کر کے امریکہ نے اکیسویں صدی کی سب سے بڑی غلطی کا ارتکاب کیا۔ امریکہ کی یہ غلطی ویسی ہی ہے کہ جیسے عام شہری اپنے بینک سے رقم نکلوانے جائے اور بینک اسے اس کی جمع بونچی نکلوانے کی درخواست مسترد کر دے۔
ایک نئی دنیا آباد ہو رہی ہے۔ سبز نوٹ کا سحر ٹوٹ رہا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب دنیا اس نوٹ کے خالق کے ڈر سے اس کی تکریم سے بھی دست کش ہو جائے۔ الحفیظ الامان!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔