چین جی سیون اجلاس کے بارے میں کچھ زیادہ خوش نہیں ہے اور ہم سب اس کی وجہ جانتے ہیں۔ لندن میں واقع چینی سفارت خانے نے اس حوالے سے جاری اپنے بیان میں کہا ہے: ’وہ دن چلے گئے جب چند ممالک کے چھوٹے سے گروہوں کی جانب سے عالمی فیصلے کیے جاتے تھے۔ ہمارا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ ممالک چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے، امیر ہوں یا غریب، کمزور ہوں یا طاقتور، برابر ہیں اور دنیا کے تمام معاملات کو تمام ممالک کی مشاورت سے حل کرنا چاہیے۔‘
چین کا موقف درست ہے۔ جی سیون ممالک عالمی جی ڈی پی کا صرف 40 فیصد ہیں لیکن باقی ممالک جن کو دعوت دی گئی ہے، ان میں سے اگر بھارت کو شامل کیا جائے تو جی ڈی پی کی شرح تقریباً 50 فیصد ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود چین دنیا میں سب سے زیادہ آبادی رکھنے والا ملک ہے (گو کہ بھارت یہ حیثیت جلد حاصل کرلے گا) اور چین رواں دہائی کے اختتام تک امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔ اس کے علاوہ روس جو اس سربراہی اجلاس میں شریک نہیں تھا، دنیا میں سب سے زیادہ رقبہ رکھنے والا ملک ہے۔ جہاں تک بات رہی برابری کی تو سفارت کاروں کو تنخواہ یہی بات کرنے کی دی جاتی ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟
جی سیون کا یہ اجلاس دنیا کو قطبین میں تقسیم کرنے کی جانب ایک قدم کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اب دنیا میں کہیں امریکی اثرونفوذ ہوگا تو کہیں چینی اثرونفوذ دکھائی دے گا اور سب سے منفی بات یہ ہے کہ یہ ایک سرد جنگ کا آغاز ہے۔ بالکل ویسی ہی جیسی روس اور مغرب کے درمیان جاری رہی۔ اگر اس حوالے سے خوش گمانی رکھی جائے تو یہ اگلی دو دہائیوں تک امریکہ اور چین کے درمیان پیچیدہ تعلقات کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے، لیکن اس دوران ان دونوں بڑے ممالک کے درمیان مل کر کام کرنے کا ایک مناسب ماحول قائم رہے گا۔
یورپ کے لیے یہ صورت حال کچھ زیادہ ہی پیچیدہ ہے۔ خاص طور پر جرمنی۔ جو کہ امریکہ کا ایک فطری اتحادی ہے اور جہاں دفاع کے لیے امریکی فوج موجود ہے، لیکن گذشتہ سال چین امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے جرمنی کی سب سے بڑی برآمدی منڈی بن گیا۔ اس لیے جرمنی ہر ممکن کوشش کرے گا کہ چین کو غضب ناک نہ کیا جائے۔ فرانس اور اٹلی بھی اسی تذبذب کا شکار ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ یورپ امریکہ کے خلاف چین کے ساتھ کھڑا نہیں ہو سکتا لیکن وہ امریکی خارجہ پالیسی کے کچھ فیصلوں سے حتی المقدور دور رہنے کی کوشش کرے گا۔ برطانیہ کے لیے راستہ بہت واضح ہے۔ ہانگ کانگ میں موجود کشیدگی کو دیکھتے ہوئے ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ ہم اپنا وزن امریکہ کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے نیو اٹلانٹک چارٹر میں اس کے جونیئر پارٹنر بن جائیں۔
اس بین الااقوامی مقابلے بازی کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے ہمیں چند اہم معاملات اور منصوبوں کو دیکھنا ہوگا۔ مثال کے طور پر جی سیون کے تمام ممالک بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کے جواب میں امریکی سربراہی میں بننے والے منصوبے میں شامل ہو جائیں گے۔ بیلٹ اینڈ روڈ چین کا منصوبہ ہے، جس کے تحت یورپ اور ایشیا کے درمیان زمینی رابطوں کو بہتر کیا جا رہا ہے (منصوبے کا یہ حصہ دی روڈ کہلاتا ہے) جبکہ چین اور یورپ کے درمیان سمندری تنصیبات (منصوبے کا یہ حصہ دی بیلٹ کہلاتا ہے) کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے۔
عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بہت بہترین محسوس ہوتا ہے۔ دنیا کو بہتر انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے اور اگر افریقہ میں مزید ریلوے آتی ہے اور ایشیا میں ونڈ فارمز کام کرتے ہیں تو یہ ایک اچھی بات ہوگی۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ بننے والے ممالک کو ناقص اور بری طرح تیار کردہ منصوبوں کے لیے بڑے قرضے دیے جانے پر بھی شدید تنقید کی جاتی ہے، لیکن چین کی نظر میں یہ مغربی دنیا کی جانب سے اس کی کامیابیوں کو چیلنج کرنے کی ایک اور مثال ہے۔
جی سیون تعاون کی ایک اور مثال امریکی سربراہی میں ان کے وزائے خزانہ کا کارپوریشن ٹیکس کی شرح کم از کم 15 فیصد رکھنے پر اتفاق کرنا تھا۔ اسے ناکافی قدم قرار دے کر تنقید کی جا رہی ہے لیکن یہ اچھی بات ہے کہ کم سے کم اس پر اتفاق تو ہوا اور مستقبل میں اس پر مزید کام کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہمیں یہ دیکھنے کے لیے انتظار کرنا ہوگا کہ جی سیون اجلاس میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے کیے گئے فیصلوں کے نتائج کیا ہوں گے، لیکن یہاں چین درست ہے کہ ایسے فیصلے چند ممالک کے ایک چھوٹے سے گروہ کی جانب سے نہیں کیے جا سکتے۔ چین، برصغیر، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں کیا ہوگا، یہ اس سے زیادہ اہم ہے جو امریکہ یا جی سیون ممالک میں کیا جا سکتا ہے۔
ایک پریشانی اور ایک امید۔ پریشانی یہ ہے کہ جی سیون اجلاس اس خیال کو فروغ دیتا ہے کہ مغرب اب بھی فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ بہت اہم ممالک ہیں اور کئی شعبوں میں ان کو تکنیکی برتری حاصل ہے لیکن یہ اہمیت وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جائے گی۔ اس لیے امریکہ اور یورپ کو اب اختیار ایشیا اور افریقہ کو منتقل کرنا ہوگا اور وہ بھی اس انداز میں جو ہمارے سیارے کے لیے بہتر ہو، لیکن اس سے پہلے ہمیں چین کے اس موقف کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ہم باقی دنیا پر اپنی مرضی نہیں چلا سکتے۔
میری امید یہ ہے کہ ہم توازن کی اس تبدیلی کو بہتر انداز میں وقوع پذیر کرسکتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ہی سب کے مفاد میں ہوگا۔ انفراسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ کاری اور دنیا بھر میں ویکسین کی فراہمی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم ایسا کرسکتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے چین اور روس کی، یہ وہ دو مہمان جو اس دعوت میں شریک نہیں، انہیں بھی واپس اس میز پر لانا ہوگا۔
© The Independent