ملک کی معاشی صورت حال ہو یا پھر بجلی کے بلوں میں اضافے کا مسئلہ، عوام سراپا احتجاج ہے اور اس وقت سب کی نظریں نگران حکومت پر جمی ہیں کہ وہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے کیا ’مشکل فیصلے‘ کرنے جا رہی ہے۔
دوسری جانب سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اس ’مشکل وقت‘ میں نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر کہاں ہیں؟ وہ تاحال نہ تو خود منظر عام پر آئی ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی پالیسی بیان سامنے آیا ہے، جس پر معاشی ماہرین بھی تعجب کا اظہار کر رہے ہیں۔
ملک کی موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کمیٹی کا اہم اجلاس آج (30 اگست) کو دن دو بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں بلا کر نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر کو طلب کر رکھا ہے۔
ایجنڈے کے مطابق شمشاد اختر کو کہا گیا ہے کہ وہ ملک کی معاشی صورت حال پر کمیٹی کو بریفنگ دیں۔ اجلاس میں چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر)، گورنر سٹیٹ بینک اور وزارت قانون سمیت دیگر حکام بھی شرکت کریں گے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس رپورٹ کی اشاعت تک ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
وزیر خزانہ آج کل کے ملک کے اقتصادی مسائل کے پیش نظر انتہائی اہم حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ روپے کی گرتی قدر اور بجلی کے زیادہ بلوں جیسے مسائل پر موجودہ نگران حکومت خاموش ہے۔ اس کے مقابلے میں ماضی کے وزرائے خزانہ میڈیا پر اپنی پالیسیوں کا بھرپور دفاع کرتے دکھائی دیتے تھے۔
تاہم نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے انڈپینڈنٹ اردو سے نگران وزیر خزانہ کی سیاسی منظرنامے سے عدم حاضری پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’شمشاد اختر چند روز کے لیے رسائی میں نہیں ہیں، وہ ایک اقتصادی منصوبے پر کام کر رہی ہیں اور کچھ معاملات میں مصروف ہیں۔‘
ڈاکٹر شمشاد اختر 2006 میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلی خاتون گورنر بنیں۔ ان کی تقرری ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بتدریج بڑھتے ہوئے افراطِ زر کے پیش نظر ان کی بطور وزیرِ خزانہ تقرری کو اہم بھی سمجھا جا رہا ہے۔
’نگران حکومت کے ٹالنے سے کوئی چیز حل نہیں ہوگی‘
انڈپینڈنٹ اردو نے سابق وزیر خزانہ اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا سے اس ساری صورت حال پر گفتگو کی، جنہوں نے موجودہ معاشی صورت حال کا ذمہ دار گذشتہ حکومتوں کو قرار دیا۔
بقول سلیم مانڈوی والا: ’نگران حکومت کو (معاملات کو) ٹالنے کے بجائے اس پر بات کرنی چاہیے، انہیں کہنا چاہیے کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ پچھلی حکومت کر کے گئی ہے۔ ٹالنے سے کوئی چیز حل نہیں ہوگی۔‘
اس ساری صورت حال میں موجودہ وزیر خزانہ کو کیا کرنا چاہیے تھا؟ اس سوال پر سلیم مانڈوی والا نے کہا: ’نگران حکومت کو بتانا چاہیے کہ پہلے کیا صورت حال تھی اور یہ ہمارا منشور ہے۔ اب اگر نگران حکومت سے تبدیلیوں کی امید کی جا رہی ہے، تو نہ تو یہ ان کے منشور میں ہے اور نہ اختیار میں۔ اگر ان کے دائرہ کار میں کسی چیز کو بہتر کرنا ہے تو کریں۔ وزیراعظم نے بجلی کے بلوں سے متعلق اجلاس بلایا ہے، دیکھتے ہیں کہ نگران حکومت کیا کر سکتی ہے۔‘
مستقبل میں مزید ممکنہ معاشی مشکلات سے متعلق سوال پر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ توانائی اور تجارت بڑے چیلنج ہیں۔ ’تجارت میں گذشتہ ماہ 800 ملین ڈالر خسارہ آیا، ان حالات کو کنٹرول میں کیا جا سکتا ہے، جو نگران حکومت کا کام ہے۔ اگر نگران حکومت فنانشل مینجمنٹ ٹھیک رکھتی ہے تو میرے خیال مشکلات میں اضافہ نہیں ہوگا۔ گورنر سٹیٹ بینک نے مجھے یہی کہا کہ اس کا انحصار حکومت پر ہے۔ ہم چار، پانچ ماہ سے مالیاتی انتظام کر رہے تھے، تجارت میں سرپلس پر جا رہے تھے۔‘
سابق وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ’جب سٹیٹ بینک نے مینیج کرنا چھوڑا تو خسارہ ایک ہی ماہ میں 800 ملین ڈالر پر چلا گیا۔ اب چاہے سینیٹ کی خزانہ کمیٹی کو مداخلت کرنا پڑے یا حکومت کو کہنا پڑے، ان تمام چیزوں کو منظم کیا جانا چاہیے۔‘
Dr. Shamshad Akhtar arrived at the Finance Ministry and officially took over the responsibility of Caretaker Finance Minister of Pakistan after taking oath at the Presidency, today. (1/2) pic.twitter.com/W7Pv4HkBDK
— Ministry of Finance (@FinMinistryPak) August 17, 2023
سبسڈی نہیں دے سکتے: وزیر خزانہ
نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو معیشت پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس مالی جگہ نہیں جس وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے۔‘
وزیر خزانہ نے ازراہ مذاق یہ بھی کہا کہ ’میں تو سوچتی ہوں میں نے یہ عہدہ قبول کیوں کیا۔‘
شمشاد اختر نے کہا کہ ایک ہفتے کے بعد معیشت پر کمیٹی کو بریفنگ دیں گے کہ ان کے لیے کیا کرنا ممکن ہے اور کیا نہیں۔
انہوں نے کہا آئی ایم ایف معاہدہ انہیں ورثے میں ملا ہے، اس پر دوبارہ بات چیت ممکن نہیں ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا بدقسمتی سے ہم نے معیشت کو کمزور کرنے کے لیے تمام کام کیے ہیں۔ تیل کے حوالے سے ’ہمارا دنیا پر انحصار ہے اور ہمیں بوجھ عوام پر منتقل کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پاس مالی جگہ نہیں ہے جس کی وجہ سے سبسڈی نہیں دے سکتے۔ یوٹیلیٹی شعبے میں کچھ چیزوں کا تعین کیا گیا ہے جس سے واپسی ممکن نہیں۔‘
ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص رقم منجمد کرنا حل ہے؟
ملکی صورت حال کے حوالے سے معاشی امور کے ماہر فرحان بخاری کہتے ہیں کہ وزیر خزانہ کو گذشتہ حکومت کی جانب سے دیے گئے بجٹ پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور خاص طور پر ’ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھی گئی رقم منجمد کر کے نظر ثانی کرنی چاہیے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’گذشتہ حکومت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھی گئی رقم کا تعلق ان کی سیاست سے تو ہو سکتا ہے، لیکن ملکی معیشت اور بہتری سے نہیں، جیسے کہ لاہور۔بہاولنگر موٹروے کا اعلان کیا گیا جس کی لاگت 265 ارب روپے ہے اور لیپ ٹاپ سکیم کے لیے اربوں روپے رکھے گئے، ان اخراجات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ایسے وقت میں معیشت پر زیادہ دھیان دینے کی ضرورت ہے۔‘
فرحان بخاری نے مزید کہا کہ ’موجودہ معاشی صورت حال کی ذمہ دار کوئی ایک حکومت نہیں، بلکہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے ملکی معیشت کو کمزوری کی جانب جانے دیا۔
’اس دوران اسحاق ڈار کے وزیر خزانہ بننے کے باوجود پاکستان آئی ایم ایف کے پروگرام میں نہیں جا سکا، اگر بروقت چلا جاتا تو روپے کی قدر میں بہتری ہوتی۔ مستقبل قریب میں ریلیف بہت مشکل لگ رہا ہے بلکہ افراطِ زر بڑھنے کا زیادہ خدشہ ہے۔‘
دوسری جانب معاشی امور کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی شہباز رانا سمجھتے ہیں کہ نگران وزیر خزانہ شمشاد اختر ایکسچینج ریٹ اور مہنگائی سمیت کئی مسئلوں پر بہتر رابطہ رکھ سکتی تھیں اور جتنے بھی عرصے کے لیے نگران حکومت آئی ہے اس کا معاشی روڈ میپ دینے کی کوشش کر سکتی تھیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں شہباز رانا نے کہا کہ ’نگران وزیر خزانہ کی جانب سے مکمل خاموشی ہے بلکہ ایسے لگ رہا ہے کہ وہ کسی پر اعتماد کرنے یا بات کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ مخصوص اجلاس کر رہی ہیں، جس سے رابطے کا خلا پیدا ہو رہا ہے۔ قیاس آرائیاں کرنے والے اس کا استعمال کر رہے ہیں اور غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ وزیر خزانہ کو اپنی رابطہ کاری کی حکمت عملی بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال کا ذمہ دار نہ تو آئی ایم ایف ہے اور نہ ہی نگران حکومت بلکہ اس کی ذمہ دار پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف ہے۔
’ان دونوں حکومتوں کے دور اقتدار میں توانائی سیکٹر کے مسائل تھے، جس کی وجہ سے گردشی قرضہ بڑھ رہا تھا، جن میں منصوبہ بندی کے بغیر لگائے گئے پاور پلانٹس بھی شامل ہیں، اس میں خاص طور پر مسلم لیگ ن کا کردار تھا۔ یہ صورت حال منصوبہ بندی اور انتظام کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ کسی ایک حکومت کو اس کا قصور وار ٹھہرانا مناسب نہیں ہوگا۔‘
حال ہی میں ایک انٹرویو میں سابق وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ نے کہا تھا کہ ان کی حکومت پر عالمی مالیاتی ادارہ کا دباؤ تھا لیکن اگر اُس وقت حکومت چاہتی تو بجلی کے فی یونٹ میں چار روپے کمی کر کے عوام کو ریلیف دیا جا سکتا تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور اب بھی نگران حکومت چاہے تو فی یونٹ میں 15 روپے تک کی کمی ممکن ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی حالیہ دنوں میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ سابقہ حکومت متعدد فیصلے نہیں کر سکی اور خاص طور پر وزارت خزانہ، وزارت پیٹرولیم اور توانائی ٹھوس فیصلے کرنے میں ناکام نظر آئیں۔
صحافی شہباز رانا نے مزید کہا کہہ جب پہلے اس طرح کے نقصانات ہوا کرتے تھے، جس کی وجہ سے گردشی قرضہ بڑھتا تھا، تو آئی ایم ایف قیمتیں بڑھانے یا بجٹ میں سبسڈی کا کہتا تھا، لیکن اب آئی ایم ایف پوری سبسڈی دینے کی اجازت نہیں دے رہا، ساتھ ہی قیمتیں بڑھانے کا کہہ رہا ہے تاکہ حکومت اپنی کارکردگی کو بہتر کر سکے۔
ان کا کہنا تھا: ’بدقسمتی سے پاکستان کے معاشی حالات آئندہ دو سے ڈھائی سال ایسے ہی رہیں گے اور فوری طور پر بہتری کی امید نہیں ہے۔ حکومت نہ ریلیف دے سکتی ہے، نہ ان کا اتنا بڑا منشور ہے اور نہ ہی یہ آئی ایم ایف کے منشور سے باہر نکل سکتے ہیں۔ بجلی کے بلوں کی اقساط کر دی جاتی ہیں تو بھی بل صارف نے ہی دینا ہے۔ اس معاملے میں بہتری کی صورت حال نہیں لگ رہی۔‘
ملکی معیشت سے متعلق معاملات کی کوریج کرنے والے صحافی مہتاب حیدر کہتے ہیں کہ نگران وزیر خزانہ کو اب تک ملکی معیشت سے متعلق بیان دے دینا چاہیے تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مہتاب حیدر نے کہا کہ شمشاد اختر کو نگران وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالے دو ہفتے گزر چکے ہیں لیکن موجودہ صورت حال پر ان کا بیان سامنے نہیں آیا۔ ’ٹھیک ہے آپ معیشت کو سمجھیں لیکن اس وقت جو چیلنجز ہیں ان کے لیے آپ کا کیا روڈ میپ ہے؟ اس حوالے سے وہ بات نہیں کر رہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پیٹرول اور بجلی کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ ایکسچینج ریٹ اور ماضی کی غلط پالیسیاں ہیں، جن کی وجہ سے حالیہ دنوں میں قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ جب تک انرجی مکس کو بہتر نہیں بنائیں گے تب تک توانائی سیکٹر ٹھیک نہیں ہو سکتا۔