بجلی کے بھاری بل ہمارا مقدر ہیں لیکن تاریخ میں یہ درجہ ہم نے عین اسی ماہ حاصل نہیں کیا، چار پانچ سو برس سے ہی ہم ان دنوں کی تیاری کر رہے ہیں۔
جب مغرب نے ٹرین ایجاد کی اس وقت ہم ان لوگوں سے شاید سو برس پیچھے ہوں، اب اتنا پیچھے ہیں کہ یہ فاصلہ وقت کی موجودہ پیمائشوں میں ناپا نہیں جا سکتا۔
میرے حساب سے اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اس دنیا کو لوٹ جانا چاہیے جسے تاریخ نے ہمارے لیے چنا تھا۔ وہ دنیا جہاں گیس، بجلی اور موبائلوں کے بغیر گزارہ ہو سکتا ہو۔ جہاں کوئی بڑی بیماری ہونے کی صورت میں بغیر ہسپتالوں کے بل دیے مرا جا سکے اور کسی وبا کی صورت میں دروازوں پہ مقدس حروف لکھ کر اندر بند رہا جا سکے۔
ہم لوگ ہمیشہ سے مغرب کی ہر ایجاد سکون سے استعمال کرتے آئے ہیں لیکن اس کا متبادل کچھ بھی، کبھی بھی نہیں سوچا، تو یہ ہونا تھا۔
ہمارا آئین، ہمارا ریاستی نظام، ہماری دوائیں، ہمارے لباس، ہماری خوراک، ہمارا کلچر اور یہ سارا انٹرنیٹ، یا نیٹ کا جال ۔۔۔ ہم لوگ، ہماری نسل، ہم اس میں سے کسی بھی چیز پہ فٹ نہیں بیٹھتے۔
دنیا تعجب کرتی ہے کہ ہمارے یہاں اقلیت کو رہنے نہیں دیا جاتا جب کہ میرے سامنے یہ عین الیقین والی صورت حال ہے۔ ہم صدیوں سے ایسے ہی ہیں۔ ظلم، تشدد، وحشت، بربریت، غلامی کی رسمیں، جنگوں کو آئیڈیلائز کرنا، یہ سب کچھ ہمارے ڈی این اے میں ہے۔ اصل ہماری یہی ہے اور اس کے ساتھ ہم ریاست کے کسی بھی موجودہ تصور میں پرسکون نہیں رہ سکتے۔
غاروں کے دور میں رہنے والے کسی آدمی کو آپ فریج، اے سی، موبائل استعمال کرنا سکھا تو سکتے ہیں لیکن اس سے تصور نہیں کر سکتے کہ وہ ان ایجادات کو کسی بھی طرح تھوڑا سا آگے بڑھا سکے، مزید ڈویلپ کر سکے۔ ہم وہی ہیں۔ بل نہیں بھر سکتے تو اب ہمیں واپس اپنی دنیا میں جانے کو تیار رہنا چاہیے۔ جو اس وقت ہو رہا ہے وہ اسی واپسی کی طرف دوسرا قدم ہے۔ پہلا قدم شاید مغل بادشاہوں کے دور میں لیا گیا تھا۔
بہرحال واپسی کا سفر ڈھلانوں پر تیز ہوتا ہے اور وہ، اب شروع ہو چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے ریل بنائی، ہم نے ٹکٹ بھر کے سفر کرنا شروع کر دیا، انہوں نے گراموفون بنائے ہم نے تین منٹ کے کمرشل گانے ریکارڈ کرنا شروع کر دیے، انہوں نے کیمرے بنائے ہم نے فلمیں بنانا شروع کیں، انہوں نے فون ایجاد کیا ہم نے اس کا بھی استعمال ہی کیا، انہوں نے گاڑی بنائی ہم نے اپنی کمائیوں سے پیٹرول بھرا اور فاصلے ناپنے شروع کر دیے۔
جب ہم نے پچھلے ایک ہزار سال میں ٹیکنالوجی کو آگے بڑھانے کے لیے ایک روپے برابر کام نہیں کیا تو کتنی دیر مزید ہم اس صورت حال میں باقی رہ سکتے ہیں؟
میں نہیں تو مجھ سے اگلی نسل، وہ نہیں تو اس سے اگلی ۔۔۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایسے بحرانوں میں پہلے غریب لوگ پھنستے ہیں لیکن پھندہ پھیلتے پھیلتے آخر بستی کے ہر باسی کے گلے میں فٹ آتا ہے۔
لیکچر بہت ہو گیا، اس وقت کیا ہو سکتا ہے؟
دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہوں کہ بالکل کچھ بھی نہیں!
میں نے ہمیشہ سے اپنے ملک کے پاسپورٹ کو دنیا بھر کے آخری نمبروں پر دیکھا ہے۔ ہماری نسل ’کلرڈ‘ لوگوں کے زمرے میں آتی ہے۔ دنیا کو ہمارے متعلق جس قسم کے بھی فوبیاز ہیں، افسوس کہ میں ان سب کے لیے نہ صرف اپنے آپ کو قصوروار سمجھتا ہوں بلکہ میں انہیں درست بھی جانتا ہوں۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ انہوں نے جب بھی ہمارے لیے اپنے خطے کے دروازے کھولے، انہوں نے بھیانک غلطی کی۔ وہ اب سنبھل رہے ہیں اور امیگریشن ٹائٹ کر کے بالکل بہترین کام کر رہے ہیں۔
کل میرے محترم استاد عارف وقار صاحب سے فون پر بات ہوئی۔ وہ لندن میں مقیم ہیں۔ انہیں میں نے کہا کہ سر پہلے یہ ہوتا تھا کہ باہر ملک بیٹھ کر پاکستان کے حالات جتنے خراب نظر آتے تھے، اتنے ہوتے نہیں تھے۔ اب نہ صرف یہ کہ جو نظر آ رہا ہے، وہی چل رہا ہے بلکہ بہت کچھ ایسا بھی چل رہا ہے جو نظر نہیں آ رہا۔
یقین مانیں یہ سب اچانک نہیں ہوا۔ جس وقت سونا چار ہزار روپے تولہ تھا اس وقت مڈل کلاس کی تنخواہوں میں ایک تولہ سونا شاید آ جاتا ہو، اب وہ بھی نہیں آتا۔ اب تو روٹی بھی نہیں آتی۔
اب شاید صرف ایک کام ہو سکتا ہے۔ سوچنا چھوڑ دیں، جدوجہد چھوڑ دیں، جو باہر بھاگ سکتا ہے بھاگ جائے لیکن جہیز میں اپنی تہذیب اور کلچر مت لے کر جائے، اسے یہیں چھوڑ دینا بہتر ہے۔