خواتین رپورٹرز غیر محفوظ کیوں؟

پاکستان میں خواتین صحافیوں کے لیے ایک محفوظ اور سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

وجیہہ اسلم کے مطابق بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جلسوں اور انتخابی مہم میں خواتین صحافی ہمیشہ غیر محفوظ رہی ہیں(ترہب اصغر)

’2018 کے انتخابات سے قبل پشاور کے تبلیغی مرکز میں جمعیت علمائے اسلام ف کا انتخابی جلسہ تھا، میں عصر کے بعد جلسہ کور کرنے پہنچ گئی۔‘

’جب میں وہاں پہنچی تو جمعیت کی ٹاسک فورس انصار الاسلام نے میرے گرد ایک دائرہ بنا لیا۔ انہوں نے پہلی بات ہی یہ کی کہ ہمارے جلسے میں عورت کیوں رپورٹنگ کرنے آئی؟ آپ فوراً اس جلسے سے نکل جائیں۔ اسی دوران کیمرہ مین، ڈرائیور آ گئے۔ انصار االاسلام نے اُس وقت تک میرے گرد دائرہ ختم نہیں کیا جب تک میں گاڑی میں بیٹھ نہیں گئی۔‘

’جب میں جلسہ گاہ سے نکلی تو مجھے دفتر سے کال آ گئی کہ آپ جمعیت کے جلسے میں کیا کر رہی تھیں؟ میں نے جواب دیا جلسہ کور کرنے گئی تھی۔ جمعیت نے میرے دفتر کال کر کے کہا تھا کہ خاتون رپورٹر کو کیوں بھیجا ہے؟‘ یہ کہنا ہے پشاور سے تعلق رکھنے والی خاتوں رپورٹر فاطمہ نازش کا۔

بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جلسوں اور انتخابی مہم میں خواتین صحافی ہمیشہ غیر محفوظ رہی ہیں۔ خواتین صحافی کو دوران ڈیوٹی اکثر ہراساں کرنے، دھمکیاں دینے اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

پاکستان میں خواتین صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ماحول میں کئی عوامل کارفرما ہیں، جس میں سب سے اہم ہمارا کلچر اور فرسودہ سوچ ہے جس میں اکثر خواتین کو کمتر اور ہراساں کرنے کا آسان شکار سمجھاجاتا ہے۔

سیاست اور انتخابات کی کوریج کرنے والی خواتین صحافیوں کے لیے صورت حال خاصی مشکل ہے۔ انہیں اکثر سیاسی جماعتوں اور ان کے حامیوں کی طرف سے نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ انہیں ان کے مفادات کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

ترہب اصغر

بی بی سی اردو کی رپورٹر ترہب اصغرکا تعلق لاہور سے ہے۔

ترہب کا کہنا ہے کہ ’بین الاقوامی ادارے سے منسلک ہونے کے بعد میں خود کو محفوظ سمجھتی ہوں کیونکہ حال ہی میں لاہور کے علاقے زمان پارک میں تحریک انصاف کے چیئرمین سابق وزیر اعظم عمران خان کے گھر کے باہر پارٹی ورکرز اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

’ہم اس وقت تک رپورٹنگ کے لیے نہیں جاتے تھے جب تک ادارے کی طرف سے سکیورٹی کلیئرنس نہیں آ جاتی تھی۔ جس ملک میں صحافی محفوظ نہ ہوں وہاں ادارے کی طرف سے یہ ایک تحفظ محسوس ہوتا ہے۔‘

ام فروا

2007 سے جیو نیوز کے ساتھ وابستہ اُم فروا نے جنرل، ہیلتھ ، سپورٹس اور سیاسی بیٹس کور کی ہیں۔

ایک خاتون رپورٹر فیلڈ میں کیسے خود کو محفوظ کرسکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہر فیلڈ میں کام کیا، ریلیوں، جلسوں کو کور کیا، شروع میں میرے خیال میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر آج کے دور میں خاتون رپورٹر کو جلسوں میں سیاسی کارکنوں کی کثیر تعداد کے درمیان اپنی سیفٹی کا خود انتظام کرناپڑتا ہے۔‘

’جہاں تک سوال ہے سکیورٹی کے حوالے سے، ہمارے پاس سکیورٹی کوئی نہیں ہوتی۔ فیلڈ میں ہم ویسے ہی کام کرتے ہیں جیسے مرد صحافی کرتے ہیں۔ ایک کیمرہ مین اور رپورٹر بس دو ہی ہوتے ہیں۔

’یہاں ایک سوال کا ذکر کروں گی جس کا جواب میں ہمیشہ نہ میں دیتی تھی، وہ سوال تھا جی آپ جیو سے تو نہیں ہیں؟ پی ٹی آئی کے مینار پاکستان کے جلسے، مال روڈ کے جلسے اور لبرٹی کے دھرنے کور کرنے جاتی تھی تو مجھ سے باقاعدہ سوال کیا جاتا تھا کہ آپ جیو سے تو نہیں؟ میں انہیں اپنا تعلق سوشل میڈیا سے بتاتی تھی۔‘

’مجھے اتنا پتہ تھا کہ اگر میں یہ کہہ دیتی جیو سے تعلق ہے تو لوگوں کا ری ایکشن کیسا آنا ہے اس کا اندازہ تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت میں جیو کا امیج کیا بنا ہوا ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔

’خاتون یا مرد صحافی کو اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ وہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی یا تحریک انصاف کی کوریج کر رہا ہے، اس کا کام خبر دینا ہے اور خبر دینے کے بعد وہ چلا جاتا ہے۔

’ایسی صورت حال کا میں نے صرف تحریک انصاف کی حکومت میں ہی مقابلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے کبھی سیفٹی کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ جلسوں اور ریلیوں کو اگر انٹرنیشنل میڈیا کور کرنے آتا ہے تو لوگوں کا برتاؤ ان کے ساتھ بہت اچھا ہے مگر وہیں نیشنل میڈیا کے ساتھ ان کا رویہ مختلف ہے۔

’سیاسی کارکن میڈیا کے لوگوں سے اپنی سیاسی جماعتوں کی پالیسی کے مطابق برتاؤ کرتے ہیں۔‘

فاطمہ نازش

فاطمہ نازش بین الاقوامی میڈیا ڈی ڈبلیو میں بطور رپورٹر خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ ماضی میں بی بی سی اردو اور ہم نیوز کے ساتھ بھی وابستہ رہی ہیں۔

سیفٹی کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’دیکھیں نیشنل میڈیا میں ہوتے ہوئے جب جلسوں ریلیوں اور دھماکوں کی کوریج کے لیے جاتے تھے تو ہمیں کوئی سیفٹی جیکٹ اور ہیلمٹ نہیں ملتے تھے۔

’ہاں مگر جب میں ہم نیوز میں کام کرتی تھی تو آفس والے یہ ضرور کہتے تھے ایک سائیڈ پر رہیں، تصادم کی صورت حال میں درمیان میں نہیں جانا، ایک سائیڈ پہ رہنا ہے۔‘

’مگر آپ کو پتہ ہے نا رپورٹر ہونے کے ناطے ہمیں یہی ہدایات دی جاتیں ہیں کہ آگے نہیں جائیں گے تو خبر کیسے ملے گی۔

’اگر آگے نہیں جاتے تو ویڈیوز نہیں ملتیں، اگر سکرین پر کسی دوسرے چینل نے کوئی فوٹیج چلا دی اور وہ ہمارے پاس نہ ہو تو دفتر سے کال آ جاتی ہے پریشر آتا ہے۔‘

سیاسی جلسوں اور انتخابی ریلیوں میں خواتین صحافی کو ہراساں کرنے کے واقعات زیادہ کیوں؟

ترہب اصغر کا کہنا ہے کہ ’سیاسی جلسوں اور انتخابی ریلیوں کو کور کرنا نیشنل میڈیا کی خواتین ر پورٹر کے لیے بالکل محفوظ نہیں۔

’عمومی طور پر خواتین رپورٹرز کے لیے جلسے کی انتظامیہ کا فوکس ہوتا ہے کہ خواتین کی سائیڈ پر رہ کر ہی رپورٹنگ کریں۔ ہاں مگر لوکل میڈیا رپورٹرز کی سیفٹی کے لیے زیادہ سے زیادہ یہ کرتا ہے کہ مرد رپورٹراورخاتون کو الگ الگ ڈیوٹی دیتے ہیں کہ مرد رپورٹر مردوں والی سائیڈ کور کرے اور خاتون رپورٹر خواتین کی جانب رپورٹنگ کریں۔

’سچ یہ ہے کہ ایسا کرنے سے بھی خواتین صحافی خود کو محفوظ نہیں پاتیں، کیونکہ آپ نے گزرنا بھی انہی راستوں سے ہے جہاں پر مرد ہیں۔‘

’جلسوں میں زیادہ تر تجربہ کار خاتون صحافی ہی کوریج کو جاتی ہیں انہیں پتہ ہوتا ہے کہ جب کوئی مشکل گھڑی آئے وہ شور مچا کر، یا اونچی آواز نکال کر مصیبت سے باہر نکل آئیں گی۔ اس کے برعکس نئی رپورٹر گھبرا جاتی ہیں اور آسان ٹارگٹ بن جاتی ہیں۔‘

لاہور پریس کلب کے صدر اعظم چوہدری نے اس بارے میں اپنا موقف دیا کہ ’فیلڈ رپورٹرچاہے مرد ہو یا خاتون، دونوں کی سیفٹی سب سے پہلے ہے۔ لاہور میں کبھی کسی خاتون رپورٹر کے ساتھ ہراسمنٹ کا واقعہ نہیں ہوا ہاں مگر کچھ سال پہلے مال روڈ پر نجی چینل کی ایک اینکر کے ساتھ تحریک انصاف کے ورکرز نے بدتمیزی کی تھی، جس کے بعد انہیں ڈی ایس این جی سے اتار کر دفتر بھیج دیا گیا تھا۔

’یہاں ایک بات میں ضرور بتاتا چلوں کہ خواتین رپورٹرز کی سیفٹی کے لیے بہت بار تمام میڈیا چینلز کی مینیجمنٹ کے ساتھ میٹنگز کیں کہ جلسوں اور ریلیوں میں خواتین کی سیفٹی کے لیے گارڈز اور جیکٹس فراہم کیا کریں، بات سن تو لی جاتی ہے مگر عمل آج تک ہوتے نہیں دیکھا۔‘

جیو نیوز کے بیورو چیف ارشد انصاری کا کہنا ہے کہ ’سیاسی جلسوں اور ریلیوں کے  لیے ایک نہیں دو سے زائد خاتون رپورٹرز کوریج کو جاتی ہیں۔ اور ان کو تاکید کی جاتی ہے کہ اپنی سیفٹی کا خیال رکھنا ہے۔‘

ایکسپریس نیوز لاہورکے بیورو چیف محمد الیاس کہتے ہیں کہ ’میں اس بات سے متفق نہیں کہ اسائنمنٹ ڈیسک خواتین رپورٹرز کو کہتے ہیں کہ اپنی جان کی پروا نہیں کرنی اور خبر لے کر آنی ہے۔

’خواتین رپورٹرز کو اپنی سیفٹی کے بارے میں ہداہت کی جاتی ہے کہ مجمعے سے دور رہ کر کام کریں۔ کیمرہ مین فوٹیج کے  لیے مجمعے میں جاتا ہے جبکہ خو اتین رپورٹرز کو سائیڈ پر رہ کر رپورٹ کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔‘

یاد رہے ایکسپریس نیوز لاہور بیورو میں ایک بھی خواتین رپورٹر نہیں۔

کیا صحافیوں کے لیے سیفٹی ورک شاپ ہنگامی صورت حال میں فائدہ مند ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پشاور سے تعلق رکھنے والی فاطمہ نازش کا کہنا ہے کہ ’کچھ عرصے سے صحافیوں کی سیفٹی کے حوالے سے پی پی ایف سمیت مختلف این جی اوز کی طر ف سے ورک شاپ کیے جاتے ہیں جن میں علاقے کے رسک کے حوالے سے بتایا جاتا ہے کہ کسی بھی سٹوری کی کوریج سے پہلے رسک فیکٹر کو چیک کر کے جانا چاہیے۔ لیکن جب ہم فیلڈ میں ہوتے ہیں اور کوئی مشکل آ جائے تو ہمارے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ خطرے کا ادارک ہوتے ہی وہاں سے نکل جائیں۔‘

ترہب اصغر نے بتایا کہ ’بطور خاتون صحافی بین الاقوامی اور قومی اداروں میں بڑا فرق ہے۔ بی بی سی کا حصہ بنتے ہی سب سے پہلے سیفٹی کی ٹریننگ کروائی گئی جس میں سکھایا جاتا ہے کہ خود کو کیسے محفوظ رکھنا ہے۔ دوسری جانب نجی چینل میں صورت حال یکسر مختلف ہے۔ انہوں نے پنجابی میں کہا کہ تسی پاویں مر جاؤ سانوں خبر دے دیو۔‘

ترہب اصغر کے اس پنجابی جملے کی تصدیق دوسری خاتون صحافیوں نے بھی کی۔

خواتین رپورٹرز کا لباس کتنا اہم ہے؟

اس سوال پر فاطمہ نازش کہتی ہیں کہ ’خیبر پختونخوا میں خواتین کو لباس کے حوالے سے بہت سی پابندیوں کا سامنا ہے۔ میں یہاں آپ کو بتاتی چلوں کہ فاٹا کا جب کے پی میں انضمام ہوا تو میں مہمند اور خیبر ایجنسی کے علاقوں میں کوریج کے لیے گئی۔

’ان علاقوں میں جانے سے پہلے میں نے باقاعدہ اس بات کا اہتمام کیا کہ پشاور کی طرح دوپٹہ نہیں لینا بلکہ بڑی چادر لے کر ان علاقوں میں رپورٹنگ کرنی ہے۔ میں بعض علاقوں میں اپنا چہرہ بھی کور کرتی تھی اور بڑی چادر کی وجہ سے مجھے وہاں کسی قسم کی کوئی مشکل نہیں ہوئی۔‘

اُم فروا کہتی ہیں ’میری نظر میں ہمارے معاشرے میں لباس بہت اہمیت رکھتا ہے۔اگر آپ نے جینز اور کرتا پہنا ہے توکچھ پتہ نہیں مجمعے میں کوئی بھی ہراساں کرنے لگ جائے۔ لباس کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ میں فیلڈ میں آنے سے پہلے جینز اور کرتا پہنتی تھی مگر میں نے خود کو تحفظ دینے کے  لیے مشرقی لباس کو ہی ترجیح دی۔‘

خواتین رپورٹرز اپنی حفاظت کے لیے کیا کریں؟

ترہب اصغر کا کہنا ہے کہ ’نیشنل میڈیا میں کام کرنے والی خواتین کو اپنی حفاظت خود کرنا ہو گی۔ خواتین کو نڈر اور طاقت ور ہونا چاہیے کیونکہ کسی نے ان کی حفاظت کے  لیے پیچھے نہیں آنا۔ میں یہاں آپ سے شئیر کرتی چلوں کہ میں نے سیاسی بیٹ کا آغاز کیا تو سیاسی جماعتوں کی کارنر میٹنگز کو رات دیر تک کور کرتی تھی، تو آفس کے نیوز ڈیسک سے کال آ جاتی تھی کہ رات ہو گئی ہے، آپ رات کے بارہ بجے تک کام کرتی ہیں تو ہمیں ٹینشن رہتی ہے۔ یہاں سے آ پ اندازہ لگائیں کہ خواتین کے حوصلے کو کس قدر پست کیا جاتا ہے۔‘

اس سوال پر فاطمہ نازش نے کہا کہ ’میں تو جان ہے تو جہاں ہے کے فارمولے پر عمل کرتی ہوں۔‘

ام فروا کا کہنا تھا کہ ’سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ ایسے قوانین بنائیں جو خاص طور پر خواتین صحافیوں کو تحفظ فراہم کریں۔ خواتین صحافیوں کے خلاف تشدد کے مقدمات کی تفتیش اور قانونی کارروائی میں پولیس کو مزید فعال ہونا چاہیے۔

’میڈیا اداروں کو اپنے عملے کو ہراساں کرنے اور تشدد سے بچانے کے بارے میں تربیت فراہم کرنی چاہیے۔ سول سوسائٹی کی تنظیموں کو اس مسئلے کے بارے میں بیداری پیدا کرنے اور مجرموں کو جواب دہ ٹھہرانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔

’جب تک یہ اقدامات نہیں کیے جاتے پاکستان میں خواتین صحافیوں کو غیر محفوظ ماحول کا سامنا کرنا پڑتا رہے گا۔‘

حالیہ برسوں میں پاکستان میں خواتین صحافیوں کے تحفظ کو بہتر بنانے کے لیے کچھ کوششیں کی گئی ہیں۔ حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی ہے اور صحافیوں کے لیے اپنی حفاظت کے بارے میں متعدد تربیتی پروگرام بھی کیے ہیں۔

تاہم پاکستان میں خواتین صحافیوں کے لیے ایک محفوظ اور سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ