نیٹ فلیکس سیریز سے ایک پاکستانی خاتون صحافی نے کیا سیکھا؟

چھ قسطوں پر مشتمل یہ کہانی بتاتی ہے کہ کیسے ایک محنتی صحافی خاتون کو ایک خبر کی تلاش اخبار کی پیچ ون سٹوری سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے جاتی ہے۔

سکوپ کی کہانی اصل واقعات پر مبنی ہے جسے ناظرین کی طرف سے بہت پذیرائی ملی (نیٹ فلکس/میچ باکس شاٹس)

پچھلے ماہ نیٹ فلیکس کی سیریز ’سکوپ‘ دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ہنسل مہتا کی ڈائریکشن میں بننے والی اس سیریز کی کہانی پیش کرنے کی طاقت اپنی جگہ، لیکن اس کرائم سیریز میں ہمارے لیے اہم یہ تھا کہ ہم خواتین صحافی اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

ویسے ہم پیشے میں صنفی تفریق کے قائل نہیں، لیکن کیا کریں ہمارے سماجی دائرے میں کہیں نہ کہیں صنف سامنے آ ہی جاتی ہے۔

اس سیریز میں ہماری دلچسپی بطور صحافی، انویسٹی گیٹو سٹوری کے لیے تگ و دو، ایڈیٹوریل رول اور کام کی وجہ سے صحافی کی گھریلو زندگی کی کشمش تھی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ یہ ایک صحافی خاتون کی آپ بیتی ہے۔ جس میں فکشن کم اور حقیقی ڈراما زیادہ ہے۔

یہ کرائم ڈراما بھارتی اخبار ایشین ایج کی صحافی جگنا وہرہ کی کتاب Behind Bars in Byculla: My Days in Prison کی ڈرامائی شکل ہے۔ چھ قسطوں پر مشتمل یہ کہانی بتاتی ہے کہ کیسے ایک محنتی صحافی خاتون کو ایک خبر کی تلاش اخبار کی پیچ ون سٹوری سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لے جاتی ہے۔

ہم نے یہ پوری کہانی ایک ہی نشست میں دیکھ ڈالی تھی۔ بحیثیت خاتون صحافی ہمیں کئی جگہ لگا کہ جیسے یہ ہمارے آس پاس کی کہانی ہے۔ خاص کر ایڈیٹر کے ساتھ ایڈیٹوریل ٹیم کی بحث کا منظر، جس میں ہر صحافی سمجھتا ہے کہ اس کی خبر سب سے اہم ہے اور اسے شہ سرخیوں کے ساتھ صفحہ اول کی زینت بننا چاہیے۔

کرائم ڈراما سیریز ’سکوپ‘ میں خاتون صحافی جاگرتی پھاٹک کا کردار اداکارہ کرشمہ تنا نے ادا کیا ہے۔ جاگرتی سنگل مدر اور محنت سے خبر نکال لانے والی کرائم رپورٹر ہیں۔ ان کی پہچان انسویسٹی گیٹو سٹوریز ہیں۔ او ٹی ٹی پلیٹ کی اس سیریز میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ کچھ مرد صحافیوں کو لگتا ہے کہ جاگرتی کو اچھے سورسز اور کنفرم نیوز اس لیے مل جاتی ہیں کیونکہ وہ خاتون صحافی ہیں اور وہ یہ کارڈ استعمال کرتی ہیں۔ یعنی ان کے کام پر ان کی صنف حاوی رہتی ہے۔

کئی سال گزر گئے لیکن ہمیں آج بھی اپنے سینیئر کا جملہ چبھتا ہے کہ ’آپ کو ٹیم میں بحیثیت خاتون رکھا گیا ہے۔‘

ہمارے ہاں بھی عمومی رائے ہے کہ خاتون صحافیوں کو ہلکی پھلی خبریں لانے کے لیے بھرتی کیا جاتا ہے، جیسے موسم، تہوار اور دیگر انٹرٹینمنٹ نیوز۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اور جب ہمیں پہلا ایوارڈ ملا تو ہمارے ایک سینیئر نے کہا تھا کہ بچوں کی جنسی تعلیم کا موضوع ہی ایسا ہے کہ ایوارڈ ملا۔ انہوں نے شاید یہ سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی کہ ممکن ہے اس سٹوری ہی میں کوئی ایسی خاص بات ہو کہ یہ ایوارڈ کی حق دار سمجھی گئی۔

اب ہم یہ بات خوشی سے بتا سکتے ہیں کہ ان میں سے ایک صاحب ہمارے کام کی تعریف کرتے ہیں اور دوسرے صاحب سٹوری اور فیچر پر گفتگو کرتے ہیں۔ مزید بہتر کرنے کے لیے ہم بھی ان سے مشورہ مانگتے ہیں اور انہیں بھی دیتے ہیں یعنی ہمارے کام نے ثابت کیا ہے کہ ہم بھی ’صحافی‘ ہی ہیں اور ہماری صنف ہماری شناخت ضرور ہو سکتی ہے لیکن ہمارے کام کو روک نہیں سکتی۔

پاکستان میں صحافت میں کتنا رسک ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس کے مطابق 2022میں صورت حال پچھلے سالوں سے بہتر ہوئی ہے اور پاکستان کا نمبر 157 سے کم ہو کر 150 پر آ گیا ہے۔

صحافیوں کا قتل یا ان پر مقدمات انڈیا کی طرح پاکستانی صحافت میں بھی عام ہیں۔ اگست کے پہلے اور دوسرے ہفتے میں سندھ کے شہروں سکھر اور خیرپور میں دو صحافیوں جان محمد مہر اور اصغر لنڈ کو قتل کر دیا گیا۔ یعنی صحافت محنت طلب کے ساتھ جاں طلب بھی بنتا جا رہا ہے۔

ہم واپس کرائم سیریز سکوپ پر آتے ہیں۔ اس پوری فلم کو دیکھ کر میرے ذہن میں تین چار سوالات آئے کہ جاگرتی پاٹھک سے کہاں غلطی ہوئی؟ ہمیں بطور صحافی کہاں رک جانا چاہیے؟ کسی بھی انویسٹی گیٹو سٹوری میں صحافتی اقدار کیوں اہم ہیں؟ اور ایڈیٹر کا کردار کیوں ضروری ہے؟

ہر صحافی اپنی خبر کی تحقیق میں دشواریوں کا سامنا کرتا ہے لیکن خاتون صحافی کی خبر پر صنفی اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ رجحان کیسے بدلے گا اور سب سے بڑھ کر صحافی تنظیموں کا کردار اس میں بہت اہم ہے۔

ان سوالات کو سمجھنے اور جوابات جاننے کے لیے سینیئر صحافیوں سے بات کی تاکہ سمجھ سکیں ہماری صحافتی ذمہ داریاں اپنی جگہ لیکن خود کو خطرے سے بچانا بھی ہمارے لیے ضروری اور اہم ہے۔

آن لائن ہراسانی ہو یا ٹرولنگ، خواتین صحافی ان کا سب زیادہ نشانہ بنتی ہیں۔ خاص کر ان کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کا ایک ہی حل ہے جس طرح 2020 میں تمام سینیئر خواتین صحافی یک زبان ہو کر سوشل میڈیا پر چلنے والی کردار کشی کے لیے اٹھ کھڑی ہوئیں۔

یہاں تک کہ بلاول بھٹو زرداری نے چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کی حیثیت سے خواتین صحافیوں کو کمیٹی کے اگلے اجلاس میں طلب کیا اور ان کی شکایت سنی گئیں۔

خواتین صحافی خطرے کو کم کیسے کر سکتی ہیں؟

سینیئر صحافی لبنیٰ جرار نقوی پاکستان کی معروف صحافی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ صحافی بہت بہادر لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ اندر سے خبر نکال کر لے کر آئیں۔ ’لیکن مرد یا عورت کی تفریق کے بغیر ہمیں اپنی ایک حد مقرر کر لینی چاہیے کہ کسی بھی خبر کے پیچھے کہاں تک جائیں۔ ہم اپنی ٹریننگ میں بتاتے ہیں کہ صحافی خبر ضرور لے کر آئے لیکن خود خبر نہ بنے، کیونکہ آپ کو آگے بھی کام کرنا ہے۔ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں اگر کوئی اسائنمنٹ ملتی ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ اس میں رسک ہے تو ہم پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ یہ آپ کا حق ہے۔ آپ کی جان بہت قیمتی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بین الاقوامی میڈیا اداروں میں رسک کے خطرات پر بات ہوتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہم صحافیوں کی ذمہ داری ہے کہ تحقیق کریں کہ وہاں کیا خطرہ ہو سکتا ہے، فیلڈ میں کیا مسائل ہو سکتے ہیں؟ ہمیں خود میپنگ کرنی چاہیے۔ الفاظ کے چناؤ سے لے کر لباس تک، ذمہ دارانہ سوالات سے لے کر خبر کی تہہ تک پہنچنا سب رسک مینجمنٹ میں شامل ہے۔ یہ ہمیں بطور صحافی لازمی کرنا چاہیے۔

انہوں نے ایک اہم بات کی طرف توجہ دلائی کہ ’صحافی بعض اوقات ایسے موضوعات اٹھا لیتے ہیں، جس سے کسی دوسری کمیونٹی اور حلقے کی دل آزاری ہو سکتی ہے، لہٰذا ہمیں کام کرتے ہوئے ان تمام باتوں کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے کام سے کسی کو نقصان یا دل آزاری نہ ہو۔

’ہماری خواتین ویسے ہی بہادر ہوتی ہیں۔ انہیں گھر سے دباؤ کے ساتھ ساتھ فیلڈ میں دیگر مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ پاکستانی میڈیا میں خواتین صحافی اچھا کام کر رہی ہیں۔ خاص کر رپورٹنگ میں، لیکن مشاہدے میں آیا ہے کہ چند صحافی خواتین خود کو منوانے کے لیے حد سے آگے بڑھ کر کام کرتی ہیں، جو ان کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے۔‘

انہوں نے مشورہ دیا کہ اگر انہیں ادارے کی طرف سے کہا جائے کہ وہ بھاگ کر یا پھلانگ کر سٹوری کور کریں تو وہ یہ کام نہ کریں کیونکہ یہ درست نہیں۔ آپ کا کام خود کو منوانا نہیں بلکہ فیلڈ میں جا کر وہاں کی خبر دینا ہے۔

اسلام آباد کی صحافی شائستہ یاسمین براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں۔ وہ بھی سمجھتی ہیں کہ صحافی کا بنیادی کام یہ ہے کہ عوام تک خبر پہنچ سکے۔ ’ہمارے ہاں بھی جاگرتی کی طرح خواتین صحافیوں کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ آن لائن ہراسانی سب سے عام بات ہے۔ سینیئر خواتین صحافی بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں اور انہیں کبھی گمنام اور کبھی براہ راست دھمکیاں دی جاتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’پاکستانی صحافت میں صنف بہت اہم ہے۔ اکثر خاتون صحافیوں کو بروقت مدد حاصل نہیں ہوتی۔ اکثر صحافی خواتین پیچھے ہٹ جاتی ہیں یا خاموش ہو جاتی ہیں۔ کبھی خواتین کو اتنا تنگ کیا جاتا ہے کہ وہ پریشان اور تھک کر فیلڈ چھوڑ دیتی ہیں، کیونکہ انہیں بروقت اخلاقی اور قانونی مدد نہیں ملتی۔ پھر ان کا خاندان بھی کہتا ہے کہ فیلڈ چن لو یا پھر گھر بچا لو۔‘

شائستہ سمجھتی ہیں کہ ہماری خواتین صحافیوں کو یونین کی مدد حاصل نہیں۔ اکثر کے پاس پریس کلب کی ممبرشپ بھی نہیں ہوتی۔ لوگ غائب ہو جاتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ چینل 5 کی رپورٹر صدف نعیم کس طرح اپنی جان گنوا بیٹھیں۔ صدف کی موت پاکستانی صحافت کے ہر بڑے عہدے دار کے لیے ایک اہم سوال ہے۔ کیا صدف کو بچایا جا سکتا تھا۔ ان پر خان صاحب سے انٹرویو کرنے کا کتنا دباؤ تھا کہ انہوں نے اپنی جان تک کی پروا نہیں کی۔

کیا سورس صحافی کا دوست بن سکتا ہے؟

کسی بھی صحافی کے سورس کے ساتھ کیسے تعلق ہونے چاہییں؟ کرائم سیریز میں دکھایا گیا ہے کہ جاگرتی پھاٹک اپنے سورس کو تحفے میں موبائل دیتی ہے۔ کیا یہ صحافتی اقدار کے منافی نہیں؟ اور ایڈیٹوریل رول کیوں ضروری ہے؟

کمال صدیقی سینیئر صحافی ہی نہیں بلکہ ایک استاد بھی ہیں۔ انہوں نے ہمارے سوال کا جواب کچھ یوں دیا کہ ’ایڈیٹر کا کردار خود صحافی کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔ وہ کور فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے واٹر گیٹ سکینڈل کا حوالہ دیا، جس میں سورس سے صرف تین لوگ واقف تھے۔ یعنی ایڈیٹر کو لازمی تمام خبر، مستند سورسز اور ثبوتوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ اس خبر کی اشاعت کے ساتھ ہی اخبار صحافی اور ایڈیٹر پر بہت دباؤ رہا۔

’جہاں تک سورس کی بات ہے، تو وہ کسی بھی سٹوری کی جان ضرور ہوتا ہے لیکن وہ صحافی کا دوست نہیں ہوتا۔ ہم نہ اس پر دباؤ ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے اپنی بات کہلوا سکتے ہیں۔ اور نہ ہی اس کا تحفظ کر سکتے ہیں۔‘

کمال صدیقی کہتے ہیں کہ ’جاگرتی پاٹھک اگر اپنے سورس کو کسی حوالے سے مالی یا اخلاقی مدد فراہم کرتی ہے تو اس میں مضائقہ نہیں، لیکن مالیت اتنی ہونی چاہیے جو وہ افورڈ کر سکے۔ جاگرتی اپنے دوست کا دیا ہوا تحفہ اپنے سورس کو دے دیتی ہے اور وہ سینیئر پولیس آفسر کا دیا ہوا پرفیوم بڑی مشکل سے قبول کرتی ہے۔‘

 ان کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ خود صحافیوں کو ملنے والے تحائف کی مالیت بھی اتنی نہیں ہونی چاہیے کہ جو ان کی ساکھ کو چیلنج کرے۔ صحافی مہنگے تحائف لینے سے انکار کر سکتے ہیں۔

خواتین صحافیوں کے تحفظ کے لیے صحافتی کلب اور یونین کا کردار اہم

کراچی پریس کلب کے سیکریٹری شعیب احمد نے بتایا کہ ’پریس کلب بنیادی طور پر اپنی صحافی کمیونٹی کا صرف ہم آواز ہی نہیں بنتا بلکہ ان کے مسائل اور انہیں ٹرینڈ کرنے میں آگے آگے رہتا ہے۔ کراچی پریس کلب میں خواتین صحافی ارکان کی تعداد 180 ہے، جو پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔

’یہاں خواتین صحافی نہ صرف اپنے کام کے سلسلے میں بلکہ کسی بھی مسئلے کو لے کر ہمارے پاس آتی ہیں اور ہم ان کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ صنف کی تفریق کے بغیر ہمارا پریس کلب صحافیوں کا دوسرا گھر سمجھا جاتا ہے۔ پریس کلب صنفی امتیاز کے بغیر اپنے تمام ارکان کی ہر ممکن مدد کرنے کے لیے تیار کھڑے رہتے ہیں، لہٰذا خواتین صحافی بغیر ہچکچائے اپنے ہر مسئلے سے ہمیں آگاہ کر سکتی ہیں۔

بقول شعیب: ’ہم ان کے ساتھ ہیں۔ خواتین ممبرز یا صحافیوں کے حوالے سے کراچی پریس کلب میں بہت سخت اصول بنائے گئے ہیں کیونکہ یہ ایک فیملی کلب ہے یہاں خواتین صحافیوں کے علاوہ ہمارے اپنے ارکان کی فیملیز بھی آتی ہیں اور وہ بہت آرام سے پورا دن پریس کلب میں گزارتے ہیں، اس لیے ہم کسی بھی صورت یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ پریس کلب میں کسی بھی خاتون صحافی کو عدم تحفظ کا احساس بھی پیدا ہو۔‘

ہمیں تو ’سکوپ‘ اچھی لگی، آپ بھی دیکھے گا، ہوسکتا ہے آپ بھی ہمارے ہم نوا بن جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ