مصنوعی ذہانت پلیٹ فارم چیٹ جی پی ٹی نے ایک ماں کو ایک ایسی بیماری کی تشخیص میں مدد فراہم کی جو ان کے بیٹے کو تین سال سے درد میں مبتلا کر کے کمزور کر رہی تھی۔
کورٹنی نامی خاتون، جنہوں نے اپنا آخری نام ظاہر نہیں کیا، نے اشاعتی ادارے ’ٹوڈے‘ کو بتایا کہ ان کے بیٹے ایلکس کو اس وقت پیچیدہ علامات کا سامنا شروع ہوا جب وہ کووڈ لاک ڈاؤن کے دوران محض چار سال کے تھے۔
کورٹنی نے بتایا: ’ہمارے خاندان کی آیا نے مجھ سے کہنا شروع کیا اسے ہر روز درد کش دوا موٹرین دینا ہو گی ورنہ وہ ایسے ہی لاغر ہوتا رہے گا۔‘
کورٹنی نے کہا کہ درد کش ادویات نے اس کے بیٹے کے درد کو کم کرنے میں مدد کی لیکن اس دوران دیگر تشویش ناک علامات ظاہر ہونے لگیں۔
ان کے بقول: ’ایلکس نے چیزوں کو چبانا شروع کر دیا جس کی وجہ سے اس کے گھر والے حیران تھے کہ کیا اسے کیویٹی کا مسٔلہ تو درپیش نہیں؟ ’دانتوں کے ڈاکٹر نے بچے کا معائنہ کیا لیکن انہیں اس میں کوئی خرابی نظر نہیں آئی۔ الیکس کو پھر ایک آرتھوڈونٹسٹ کے پاس بھیجا گیا جس نے اس کے تالو کو بہت چھوٹا پایا، جس کی وجہ سے اسے سونے میں پریشانی ہو سکتی ہے۔‘
آرتھوڈونٹسٹ کی تشخیص کے بعد ایلکس کے اہل خانہ نے سوچا کہ شاید اسی وجہ سے اس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہو رہی تھی۔
آرتھوڈونٹسٹ نے الیکس کا علاج اس کے تالو میں ایک ایکسپینڈر رکھ کر کیا جس سے اس کے خاندان کو عارضی طور پر سکون ملا۔
کورٹنی نے کہا: ’سب کچھ تھوڑا سا بہتر تھا۔ ہم نے سوچا کہ ہم نے مسٔلہ حل کر لیا۔‘
لیکن الیکس کی تکلیف جاری رہی اور کورٹنی نے جلد ہی محسوس کیا کہ ان کے بیٹے کی نشوونما رک گئی اور وہ اس طرح نہیں چل رہا ہے جس طرح اسے چلنا چاہیے تھا۔
ان کے بقول: ’وہ اپنے دائیں پاؤں کو آگے بڑھاتا اور پھر بائیں پاؤں کو تھوڑا سا آگے کرتا۔ اسے شدید سر درد اور تھکن کا بھی سامنا تھا۔‘
کورٹنی کے خاندان نے ماہر اطفال، نیورولوجسٹ اور ناک کان گلے کے ماہر سمیت الیکس کا کئی ماہرین سے معائنہ کرایا تاکہ یہ جانا جا سکے کہ آخر اس کے ساتھ کیا مسٔلہ تھا۔
کوٹنی نے کہا کہ انہوں نے 17 ڈاکٹروں سے مشورہ کیا لیکن وہ جواب کے بغیر مایوس لوٹے۔ کسی بھی تجویز کردہ علاج سے اسے افاقہ نہیں ہوا۔
ڈاکٹروں کے پاس مسلسل تین سال چکر کاٹنے کے بعد کورٹنی نے اپنے جوابات کے لیے چیٹ جی پی ٹی سے رابطہ کیا۔ چیٹ بوٹ، جسے اوپن اے آئی نامی کمپنی نے 2022 میں ریلیز کیا تھا، کو لوگوں سے گفتگو کے انداز میں بات کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔
کورٹنی نے بتایا: ’میں نے ہر وہ چیز جو ایم آر آئی رپورٹس میں شامل تھی من و عن چیٹ جی پی ٹی میں فیڈ کر دی۔ میں نے وہاں نوٹ چھوڑا جس میں لکھا گیا تھا کہ وہ آلتی پالتی مار کر نہیں بیٹھ سکتا۔ میرے لیے یہ ایک بہت ناگوار چیز تھی کہ ساختی چیز غلط ہو سکتی تھی۔‘
چیٹ جی پی ٹی کو آزمانے کے بعد کورٹنی کو ٹیتھرڈ کورڈ سنڈروم کے بارے میں معلوم ہوا جو سپائنا بائفڈا مرض کی پیچیدہ شکل ہے۔
انہوں نے ایک نئے نیورو سرجن سے بات کی جس نے اس بات کی تصدیق کی کہ الیکس کو سپائنا بیفیڈا اوکلٹا نامی مرض کے نتیجے میں ریڑھ کی ہڈی میں ٹیتھرڈ ہے، یہ پیدائشی نقص ہے، جو ریڑھ کی ہڈی کی نشوونما میں مسائل کا باعث بنتا ہے۔
امریکی ادارے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کے مطابق یہ سپائنا بیفیڈا کی سب سے کم ظاہر ہونے شکل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس حالت کو بعض اوقات ’پوشیدہ‘ سپائنا بیفیڈا ہا جاتا ہے اور اس کا اکثر بچے کی زندگی کے آخر تک پتہ نہیں چلتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کورٹنی نے کہا کہ ’نئے ڈاکٹروں نے اسے پوائنٹ بلینک قرار دیا۔ یہاں (اوکلٹا) سپائنا بیفیڈا ہے اور یہ وہ جگہ ہے جہاں ریڑھ کی ہڈی کو جوڑا گیا ہے۔‘ اس کے بعد کورٹنی نے کہا کہ انہوں نے جذبات، راحت، توثیق اور اپنے بیٹے کے مستقبل کے لیے پر جوش محسوس کیا۔
محققین پہلے ہی چیٹ جی پی ٹی کے طب پر اثرات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ سائنسی جریدے ’فرنٹیئرز آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘ میں مئی میں شائع ہونے والے ایک مقالے میں کہا گیا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے طب کے شعبے کے لیے فوائد اور خامیاں دونوں ہیں یعنی طبی میدان میں چیٹ جی پی ٹی کا ممکنہ اطلاق ممکنہ تحقیقی موضوعات کی نشاندہی سے لے کر طبی اور لیبارٹری تشخیص میں پیشہ ور افراد کی مدد کر سکتا ہے تاہم ممکنہ ایپلی کیشنز یا فوائد کے باوجود طبی تحریر میں چیٹ جی پی ٹی اور دیگر اے آئی ٹولز کا استعمال اخلاقی اور قانونی خدشات کا باعث بھی بنتا ہے۔‘
ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی ممکنہ طور پر کچھ لوگوں کو صحت کی دیکھ بھال کے نظام کی معلومات حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے لیکن یہ ابھی تک موجود نہیں ہے۔
جیسا کہ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن (اے ایم اے) کے صدر، ایم ڈی، ایم پی ایچ جیس ایم اہرینفیلڈ نے ٹوڈے کو ایک بیان میں بتایا: ’اے آئی پروڈکٹس ڈاکٹروں کے انتظامی بوجھ کو کم کرنے میں مدد کرنے میں زبردست ثابت ہوئے ہیں اور بالآخر انہیں مریضوں کی براہ راست دیکھ بھال میں کامیابی کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اوپن اے آئی کے چیٹ جی پی ٹی اور دیگر جنریٹیو اے آئی پروڈکٹس میں اس وقت مسائل ہیں اور یہ غلطی سے پاک نہیں ہیں۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ اے آئی من گھڑت چیزیں، غلطیاں یا خرابیاں پیدا کر سکتا ہے جو مریضوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
لیکن کورٹنی کے لیے یہ فائدہ مند ثابت ہوا جن کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی نے ان کے خاندان کو اپنے بیٹے کی بہترین ممکنہ دیکھ بھال فراہم کرنے میں مدد کی۔
انہوں نے ٹوڈے کو بتایا: ’کوئی ایسا نہیں تھا جس نے کڑیوں سے کڑیاں جوڑی ہوں۔ آپ کو اپنے بچے کے لیے لڑنا ہو گا۔‘
© The Independent