کیا آپ کو تاریخ میں کسی خاتون سائنسدان کا نام یاد ہے؟ امکان ہے کہ آپ شاید میری کیوری کا نام پکاریں۔ اسلامی دنیا میں اس بابت نام فوری طور پر ذہن میں آنا زیادہ مشکل ہے۔ دو مرتبہ نوبیل انعام حاصل کرنے والی کیوری اور عارضی دان ایڈا لولیس مغربی سائنس میں ان چند عورتوں میں سے دو ہیں جنہیں دائمی عوامی پزیرائی ملی۔
سائنس کے بیانیے سے عورتوں کے غائب ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ عوامی ریکارڈ میں آپ کو خواتین سائنسدان نہیں ملتی ہیں۔ آج بھی سائنس میں آنے والی عورتوں کی تعداد مردوں سے کم ہے، خصوصا بعض شعبوں میں۔ اے لیول اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ کمپوٹنگ میں محض 12 فیصد جبکہ طبیعیات میں 22 فیصد امیدوار عورتیں ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ عورتیں سائنسدان کی عام ذہن میں آنے والی شبہہ پر پورا نہیں اترتیں ہیں۔ لیکن تاریخ کو ٹٹولنے سے اس تاثر کو چیلنج کیا جاسکتا ہے اور وضاحتیں حاصل کی جاسکتیں ہیں کہ کیوں سائنس پر مرد حاوی ہیں۔ آغاز کے طور پر سائنس کے بارے میں روایتی نظریہ یہی ہے کہ یہ معلومات کا مجموعہ ہے ناکہ کوئی سرگرمی جو عورتوں کا بطور مددگار حصہ نذر انداز کرتا ہے۔ اس کی بجائے وہ ان بڑی دریافت سے حاصل کردہ حقائق پر توجہ دیتا ہے (اور ان مردوں پر جنہوں نے انہیں مقبول بنایا)۔
انیسویں صدی کی ستارہ شناس کیرولائن ہرشل اپنے بھائی ولیم کے سائے میں رہیں۔ ماہر طبیعات لیز میٹنر جوہری فیوژن دریافت کرنے کے لیے انیس سو چورانوے کے نوبیل انعام سے محروم رہیں جو ان کے جونیئر مددگار اوٹو ہان کو مل گیا۔ کیوری پر بھی پریس میں تنقید کی گئی انہوں نے اپنے شوہر پیری کے کام سے فائدہ لیا۔
تاریخ دان مارگریٹ روزیٹر نے عورتوں کی جانب اس منظم تعصب کو ”میتھو مٹلڈا ایفیکٹ یا اثر” قرار دیا۔ بیسویں صدر سے قبل خواتین کی معاشرتی حالت کا مطلب تھا کہ وہ سائنس تک رسائی صرف اس صورت میں حاصل کرسکتی تھیں اگر وہ اپنے خاندان کے مردوں یا دوستوں کے ساتھ مل کر کام کریں اور پھر وہ بھی اگر وہ امیر ہیں۔ اس نے انہیں مردوں کے مددگار یا حمایتی کی درجہ بندی کا شکار کر دیا۔
نیچر میگزین میں دسمبر 1923 میں ماہر طبیعات اور الیکٹریکل انجینر ہرتھا ایرٹن کی موت پر، جنہوں نے 1906 میں اصل تحقیق کے نتیجے میں رائل سوسائٹی کا ہیو میڈل دیا گیا، شائع ہونے والے ایک مضمون یہ ظاہر کرتی ہے۔ اس مضمون نے ایرٹن پر اپنے شوہر کو نذر انداز کرنے پر تنقید کی۔ اس میں کہا گیا کہ اپنی سائنس پر توجہ دینے کی بجائے انہوں نے شوہر کی خدمت کی ہوگی تاکہ وہ سائنس پر بہتر توجہ دے سکیں۔ اس مضمون نے ان کی میراث بھلا دینے میں مدد دی۔
اس طرز کے تسلسل سے رویوں نے عورتوں کے ”مناسب” کردار اور ان کی سائنس کے لیے حصے کو چھپا دیتے ہیں۔ یہ ہمیں اس پر بھی مجبور کرتی ہیں کہ ہم انہیں مددگار کے طور پر ایسے شعبوں میں جیسے کہ سائنس لکھنے، ترجمے اور انہیں شکلوں کی صورت بیان کرنے نذر انداز کر دیں۔
خواتین سائنسدانوں کو بھول جانے کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ سائنس صرف ایک پیشہ 19 ویں صدی کے آخر تک رہا ہے۔ اس کے بعد یہ نئی تنظیم سازی کی ترتیبات پر چلا گیا، خواتین کو گھروں میں پیچھے چھوڑ دیا جہاں ان کی سائنس تاریخ سے پوشیدہ رہ گئی۔ مثال کے طور پر، چند کو ہینڈرینا سکاٹ، جنہوں نے پہلی مرتبہ 1903 میں پودوں کی حرکات کو ٹائم لیپس فوٹو گرافی کے ذریعے ریکارڈ کیا تھا۔
عورتوں کو اس وقت پیشہ ورانہ جگہوں سے دور رکھنا وجہ ہے کہ خواتین سائنسی مضامین میں زیادہ فعال ہو گئی تھیں جو ابھی تک فیلڈ ورک پر زیادہ انحصار کرتیں، جیسے کہ فلکیات اور بوٹنی۔ یہ ہے جہاں سائنس میں مردوں کا غلبہ "سخت" علوم، جیسے کہ طبیعات، اور "نرم" علوم، جیسے کہ بوٹنی اور حیاتیاتی سائنس کے تنظیمی ڈھانچے میں تقسیم کرنا شروع ہوا جوکہ خواتین کے لیے زیادہ قابل قبول سمجھا جانے لگا۔
بندش
عورتوں پر عمومی طور پر اہم سائنسی اداروں میں داخلہ ممنوع تھا اس لیے ہمیں ان کے نام فیلوشپ فہرستوں میں نہیں ملتے ہیں۔ رائل سوسائٹی کی پہلی زنانہ اراکین کا انتخاب 1945 میں ہوا، اور فرینچ اکیڈمی نے 1979 تک پہلی خاتون فیلو کو داخلہ نہیں دیا۔ 1892 اور 1893 میں رائل جیوگرافکل سوسائٹی نے پہلی مرتبہ خواتین فیلوز کے امکان پر بات کی۔ کونسل ممبران کے درمیان تلخ تنازع دی ٹائمز کے خطوط کے صفحے پر دیکھا گیا۔ اس نے پہلی مرتبہ عورت کو داخلہ 1913 میں دیا۔
اس کے باوجود، خواتین نے جہاں موقع ملا وہاں کام کیا۔ 1880 اور 1914 کے درمیان، کچھ 60 خواتین نے رائل سوسائٹی کے لیے مضامین لکھے۔ اور چند عورتوں نے تنخواہ یا کسی ٹائٹل کے بغیر سائنسدان کے طور پر کام جاری رکھا۔ ڈورتھیا بیٹ ایک ممتاز پالوٹولوجسٹ
تھیں جو نیچرل سائنس میوزیم سے 1898 سے جڑی تھیں تاہم انہیں 1948 تک نہ کچھ ادا کیا گیا اور نہ ہی عملے کا رکن بنایا گیا جب وہ اپنی عمر کے ساٹھ کے پیٹھے میں تھیں۔
خواتین سائنسدانوں کے لیے یہ رویہ کیوں؟ انیسویں صدر کے اواخر میں سائنس نے سیکھایا کہ جنس کے درمیان چند باریک ذہنی اختلافات تھے جو عورتوں کی سائنس میں صلاحیت کو محدود کرتے تھے۔ (ایک اور وجہ تھی کہ سائنسی سوسائٹیاں خواتین فیلوز کی وجہ سے اپنی تاثر خراب نہیں کرنا چاہتی تھیں)۔ چارلس ڈارون کہتے ہیں کہ تخلیقی مقابلے کی وجہ سے مردوں کے دماغوں نے زیادہ ترقی پائی۔
کیرولین مرچنٹ اور لونڈا شبیبنگر جیسے ماہرین نے یہ بتایا ہے کہ 17 ویں صدی کے اواخر میں جدید سائنس کی پیدائش خواتین کی شمولیت کی مخالفت پر مبنی تھی۔ فیمینٹیٹی سائنس کی جانچ پڑتال سے جوکہ متحرک مردانہ تحقیقات کے برخلاف تھی منسلک ہوگئی۔
بیسویں صدی کی ابتدا تک سائنس اور قدرت کی نوعیت باقاعدہ طور پر عورتوں کے ساتھ جوڑ دی گئی تھی، جس میں مرد محقق ان کے رازوں کو فاش کرتا تھا۔ سائنس کی یہ ثقافتی تفہیم - جس کا ہر جنس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے - خواتین کو ایک چیلنج پیش کیا جو آج بھی پہچانا جاسکتا ہے۔
اگرچہ ہمیں محتاط رہنا ضروری ہے کہ سائنس میں خواتین کی سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش نہ کریں لیکن یہ بھی یاد رکھنا اہم ہے کہ ان خواتین سائنسدانوں کو نہ بھولیں جنہوں نے کئی رکاوٹوں کو عبور کرکے یہ مقام حاصل کیا۔ ہمیں اس کے لیے خواتین رول ماڈلز مہیا کرنا ہوں گے اور ان کی سائنس کے ہر شعبے میں شمولیت کو یقینی بنانا ہوگا۔
کلیئر جونز یونیورسٹی آف لیورپول میں سائنس کی تاریخ کی ایک سینئر لیکچرر ہیں۔ یہ مضمون دی کنورسیشن ڈاٹ کام پر پہلے شائع ہوا۔