سابق وزیراعلی پنجاب اور صدر پاکستان تحریک انصاف پرویز الٰہی کو عدالتی حکم کے باوجود رہا نہ کرنے کے معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس وقاص رؤف نے اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
اس کے علاوہ عدالت نے چیف کمشنر اسلام آباد کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں دو اکتوبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔
گذشتہ سماعت پر عدالت نے آئی جی اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصر خان کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابل ضمانت وارنٹ جاری کیے تھے مگر پیر کی سماعت پر بھی جب آئی جی عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کر دیے۔
پرویزالٰہی کی رہائی کے لیے ان کی اہلیہ کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس وقاص رؤف نے استفسار کیا کہ آئی جی اسلام آباد کہاں ہیں؟ جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ وہ نہیں آئے لیکن ان کا جواب آیا ہے۔
جسٹس وقاص رؤف کا کہنا تھا، ’ہم نے آئی جی کو طلب کیا تھا وہ کہاں ہیں؟ کیا آپ عدالتی احکامات کو ایزی لے رہے ہیں؟ ہم نے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے۔‘
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی اسلام آباد میں مصروف ہیں جس پر عدالت نے سرکاری وکیل کو ہدایت کی کہ وہ آئی جی سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ کیسے آنا چاہیں گے؟
پیر کی سماعت کے دوران اٹک کے ضلعی پولیس افسر ڈی پی او اور راولپنڈی پولیس کے سی پی او بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے لیکن سپرنٹنڈنٹ جیل اٹک کے پیش نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور ان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
یاد رہے گذشتہ سماعت پر عدالت نے ان تمام افسران کو توہین عدالت اور پرویز الٰہی کو عدالت میں پیش نہ کرنے پر شو کاز نوٹسز جاری کیے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پیر کو ہونے والی سماعت میں ڈی پی او اٹک نے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کروایا جس پر عدالت نے ڈی پی او اٹک اور سی پی او راولپنڈی کے خلاف جاری شوکاز نوٹس واپس لے لیے۔
عدالت نے درخواست گزار قیصرہ الٰہی کے وکیل سے استفسار کیا کہ پرویز الٰہی کے عدالت میں پیش ہونے کے معاملے میں پنجاب پولیس کے ایس پی اقبال ٹاؤن، ڈی آئی جی آپریشنز، اور ڈی آئی جی انوسٹی گیشن کا کیا کردار تھا؟
وکیل نے جواب میں بتایا کہ عدالت نے ان افسران کو پرویز الہی کو باحفاظت گھر پہنچانے کا حکم دیا تھا۔
گذشتہ مہینے لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری پرویز الٰہی کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے انہیں کسی بھی ادارے کی طرف سے کسی بھی کیس میں گرفتار نہ کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔
تاہم اسلام آباد پولیس نے لاہور ہائی کورٹ کے باہر سے چوہدری پرویز الٰہی کو تین ایم پی او کے تحت گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے چوہدری پرویز الٰہی کی تین ایم پی او کے تحت نظر بندی کے خلاف درخواست کی سماعت کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔ لیکن عدالت کے اس حکم کے چند منٹ بعد ہی انہیں کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ نے پھر گرفتار کر لیا تھا۔
پیر کو ہونے والی سماعت میں ڈی آئی جی آپریشنز، ڈی جی انویسٹی گیشن نے بھی توہین عدالت نوٹس پر اپنے جواب عدالت میں جمع کروائے۔ جواب میں لکھا تھا کہ اسلام آباد پولیس کے پاس پرویز الہی کی گرفتاری کا تھری ایم پی او کے تحت نظر بندی کا حکم تھا اس لیے انہیں اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا گیا۔
جس پر جج نے کہا کہ عدالت کا واضح حکم تھا کہ پرویز الٰہی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔
جسٹس وقاص رؤف نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب پولیس، اسلام پولیس کے ایک افسر کے سامنے کیوں کر بے بس ہو گئی؟ ’اگر پولیس افسران دباؤ برداشت نہیں کر سکتے تو وردی اتار کر کوئی اور کام کریں۔ پولیس کا ان کاموں کی وجہ سے عوام میں احترام نہیں رہا۔‘