پاکستان کے آبادی اور سیاست کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا معرکہ حکومت اور اپوزیشن کے لیے ایک بار پھر چیلنج بن گیا ہے جہاں ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے 15 امیدوار کامیاب ہونے پر پارٹی کو اکثریت تو حاصل ہوگئی مگر سیاسی جوڑ توڑ کی کوششوں نے صورت حال غیریقینی بنا دی۔
حکمران اتحاد اور اپوزیشن کی دونوں کی جانب سے کامیابی کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ فریقین اپنی کامیابی کے لیے پراعتماد بھی ہیں اور کوشاں بھی۔
نمبر گیم کے لحاظ سے اپوزیشن امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو 187 ممبران کی حمایت حاصل ہوگئی ہے جبکہ حکمران اتحاد کے پاس 178 اراکین موجود ہیں۔ لیکن وفاقی وزیر رانا ثنا اللہ نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی کے 50 اراکین پرویز الٰہی کو ووٹ نہیں دیں گے۔
ق لیگ کے رہنما کامل علی آغا نے آزاد امیدواروں کی بھی حمایت کے یقین کا اظہار کرتے ہوئے پرویز الٰہی کو 190 اراکین کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق صدر آصف علی زرداری لاہور میں ہیں۔ حکومتی امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت کے لیے آصف زرداری نے چوہدری شجاعت سے دو دن میں تین ملاقاتیں کیں اور رات گئے تک چوہدریوں کی رہائش گاہ پر موجود رہے۔
دوسری جانب ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری نے چیف سیکرٹری کو سکیورٹی فراہم کرنے کا خط لکھا تو صورت حال پہلے کی طرح کشیدگی کی طرف جاتی دکھائی دے رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھی صورت حال واضح نہیں ہے۔ ماضی میں اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے فارمولوں کو مدنظر رکھا جائے تو انتخاب کا نتیجہ آنے تک کچھ بھی یقینی نہیں ہے مگر ق لیگ کا کردار فیصلہ کن ثابت ہوگا۔
غیریقینی کیوں ہے؟
تجزیہ کار تنزیلہ مظہر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ضمنی انتخاب کے غیرمتوقع نتائج سے پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال سے وزیراعلیٰ کے انتخاب پر مزید غیریقینی ہوگئی کیونکہ ایک طرف سیاسی کھلاڑی دوسری جانب نشستوں کی برتری ہے جسے حکومت اپنے حق میں کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہے۔‘
تنزیلہ کے بقول ’پنجاب میں جب سے حکومت تبدیلی کا عمل شروع ہوا اور ایوان میں جس طرح جھگڑا ہوا، ایوان دو چلے اور موجودہ فضا سے نہ صرف پنجاب کے عوام بلکہ ملکی سیاسی عدم استحکام کا سبب بن رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’ساری کشمکش اس لیے بڑھی کہ پنجاب میں حکومت کی تبدیلی کا اثر وفاقی حکومت کے عدم استحکام کی طرف جاسکتا ہے۔‘
سینیئر اینکر مبشر لقمان کے مطابق ’اس سارے کھیل کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں عدم برداشت ہے، دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کے ذریعے معاملات حل کرنے کو تیار نہیں اور ضمنی انتخاب سے اب تک دیکھا جائے تو ان حالات میں اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہے لہذا کوئی بھی ان کی طرف نہیں دیکھ رہا، مگر سیاسی جماعتوں کے لیے اب آزاد ماحول میں سیاسی طور پر استحکام امتحان ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مبشر نے کہا کہ ’جس طرح سینیٹ میں پی ٹی آئی حکومت نے پی ڈی ایم کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر کے چیئرمین سینیٹ کو بچایا اسی طرح اب موجودہ حکومت وفاق کی طرح پنجاب میں جوڑ توڑ سے اپوزیشن کا راستہ روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے خیال میں مسلم لیگ ن کی قیادت بھی ہر صورت حکومت برقرار رکھنے کا پلان رکھتی ہے مگر اس معاملے پر کوئی بات نہیں کی جارہی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت آسانی سے شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور اپوزیشن کو آسانی سے جیتنے نہیں دےگی۔
ق لیگ پر دباؤ
تنزیلہ مظہر کے مطابق ’سیاسی ابہام کی سب سے بڑی وجہ مسلم لیگ ق کی وفاق اور پنجاب میں مختلف سیاست ہے۔‘
ان کے بقول ’ایک طرف وہ وفاق میں حکومت کے ساتھ ہیں تو دوسری طرف پنجاب میں اپوزیشن کی حمایت سے چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنوانا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس ساری صورت حال میں ایک دوسرے کے اراکین کی وفاداریاں تبدیل کرنے کی گیم کے علاوہ سب سے زیادہ دباؤ اس وقت ق لیگ کی قیادت پر ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’چوہدری شجاعت کو وفاق میں اتحادی ہونے پر حکومت پنجاب میں حمایت چاہتی ہے، دوسری جانب چوہدری پرویز الٰہی تحریک انصاف کی جانب سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار بنائے جانے پر وہ عمران خان کی جانب سے دباؤ میں ہیں لہذا سب سے زیادہ پریشر ق لیگ کی قیادت پر ہے حالانکہ ان کی پنجاب میں 10 نشستیں ہیں مگر یہ فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔‘
پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری نے دو دن میں چوہدری شجاعت سے تین بار ملاقات کی۔ انتخاب سے قبل جمعرات کو جب وہ چوہدری شجاعت سے ملاقات کے لیے پہنچے اور بات کر کے ظہور الٰہی روڈ ان کی رہائش گاہ سے روانہ ہوئے تو تھوڑی دیر بعد چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الہی گھر آگئے لہذا آصف زرداری 15 منٹ بعد دوبارہ پہنچ گئے۔
انہوں نے چوہدری شجاعت سے ملاقات کی اور چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی بھی اس دوران گھر پر ہی تھے۔ پھر وہ گھر سے باہر نکل گئے اور ان کی جانب سے بیان جاری کیا گیا کہ چوہدری پرویز الٰہی اور مونس نے آصف زرداری سے ملاقات نہیں کی۔
آصف زرداری کھانے کے بعد تین گھنٹے بعد رات گئے چوہدری برادران کی رہائش گاہ سے روانہ ہوگئے۔
اس اہم ترین ملاقات کے حوالے سے پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ ق کی جانب سے باقائدہ کوئی اعلامیہ یا پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی جس کے نتائج کا اندازہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کے موقع پر ہی ہوسکتا ہے کہ ق لیگ کے 10 اراکین حکمران اتحاد کا ساتھ دیں گے یا اپنے امیدوار چوہدری پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنوائیں گے۔
انتخاب سے قبل تلخی
سپریم کورٹ کے حکم پر ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے انتخابات کے انعقاد کی تیاریاں تو شروع کر دیں ہیں مگر ان کی جانب سے چیف سیکرٹری کو اپنی جان کو خطرے، بدامنی کے پیش نظر سکیورٹی کے لیے خط لکھنے پر انتخاب سے قبل ہی تلخیاں بڑھ گئیں۔
ان کی جانب سے لکھا گیا خط میڈیا میں منظر عام پر آنے کے بعد اپوزیشن رہنما اسے انتخابی عمل میں خلل ڈالنا اور جانبداری کا موجب قرار دے رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی آئی رہنما شہباز گل نے کہا کہ ’خط پر 22جولائی کی تاریخ درج ہے جبکہ خط ایک دن پہلے منظر عام پر آگیا جس کا مطلب ہے ڈپٹی سپیکر نے انتخابی عمل کو متاثر کرنے کے لیے پہلے ہی خط لکھ کر رکھا ہے۔‘
دوسری جانب ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری نے ایک بیان میں کہا کہ وہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کا انعقاد پر امن اور غیر جانبدر طریقے سے کرانا چاہتے ہیں۔
ان کے بقول ’جس طرح پہلے ایوان میں حالات خراب ہوئے اس بار بھی وہی خدشہ ہے اس لیے سکیورٹی کے انتظامات کرنا ناگزیر ہیں۔‘
دوست مزاری کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی نگرانی میں الیکشن کرانا ہے اور جس امیدوار کو زیادہ ممبران کی حمایت حاصل ہوگی اس کو وزیراعلیٰ پنجاب منتخب قرار دے دیا جائے گا۔
اس حوالے سے اراکین کی سکیورٹی بھی لازمی ہے اسے بھی یقنی بنایا جایا گا۔
ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ ’سپریم کورت کے احکامات پر مکمل عمل کیا جائے گا اور کوئی بدامنی یا جھگڑا برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘