پچھلے دنوں اسلام آباد میں برپا آکسفورڈ ادبی میلے نے مجھے سوچنے کا موقع دیا کہ اس ’گوگل‘ والے دور میں کیا کتابی میلوں کی ضرورت باقی ہے؟
سب کچھ تو ایک ’کلک‘ پہ ہمارے فون یا لیپ ٹاپ پہ ’جن‘ کی طرح ظاہر ہو جاتا ہے، پھر لاکھوں کی تعداد میں یہ کتابیں چھپوانا، ان کی رونمائی اور ان کی خریداری، کیا سب کچھ اب بھی ماضی کے لطف جیسا ہے یا ہو گا؟
کتابی میلوں کا انعقاد بقول صحافی سمیرہ نقوی کے ’ایک اچھا موقع ہے، آج بھی کتابوں سے جڑے رہنے کے لیے، ان میلوں میں جہاں کتابوں کے سٹال سجتے ہیں، نئی کتب کی رونمائی ہوتی ہے گفتگو کے بہانے صحیح ہم کتابوں کو ملنے آتے تو ہیں۔
’اس ’جین زی‘ کے دور میں یہ میلے بہت ضروری ہیں کہ منعقد ہوتے رہیں، لوگ مل بیٹھتے ہیں، ایک دور دہرانے کا موقع ملتا ہے، جب نئی کتاب کے حصول کی اپنی خوشی اور کشش ہوا کرتی تھی۔‘
اپنے سوالوں کو کھوجنے کے لیے میں نے افتخار عارف صاحب کو بھی زحمت دی کہ آج کے دور میں کتابوں کا کیا کام؟
انہوں نے اپنے بچپن سے جڑے ماحول اور یادوں کو مجتمع کرتے ہوئے بتایا ’میں لکھنو یونیورسٹی سے جب تعلیم حاصل کر رہا تھا تو ٹیگور لائبریری میں کافی وقت گزارتا، مضامین میں اردو، فارسی، سوشل ورک اور سوشیالوجی پڑھا کرتا اور تاریخ اور فلاسفی بھی میرے مضامین میں شامل تھی۔
’مجھے بچپن سے ہی نانا مرحوم نے مطالعے اور کتب خانے کی عادت ڈال دی تھی۔‘
موجودہ گوگل اور وکی پیڈیا کی دسترس پہ افتخار عارف نے جدید ٹیکنالوجی سے اپنی مختصر دلچسپی ظاہر کی اور آج کے نوجوانوں میں مطالعے کے رجحان پہ کہا کہ ’ بیشک اب سرچ انجن آ چکے ہیں سب کچھ ایک کلک پہ پڑھا اور دیکھا جا سکتا ہے لیکن جو لطف نئی کتاب کو ہاتھ میں لینے، اس کے اوراق کو پلٹنے اور محسوس کرنے کا ہے وہ کسی ’کلک‘ میں کہاں۔‘
ایک تحقیق کے مطابق کتب خانوں کی تاریخ تقریباً پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ جب معلومات کو دستاویزی شکل دینے کا سوچا گیا۔
کلاسیکل یونان میں پانچویں صدی قبل مسیح میں کتابوں والے نجی کتب خانوں کی شروعات ہوئی۔
یورپی تاریخ کے حوالے سے دیکھیں تو پہلی لائبریری دو ہزار سال قبل رومن کونسل ’اسائینیس پولیو‘ نے کلاسیکل یونان میں متعارف کرائی۔ اس کے بعد سکندریہ کی لائبریری تو مشہور ہے ہی۔
ان سبھی حوالوں سے تو کتابوں کا جنم اور ان کے پڑھے جانے کا پتہ ملتا ہے، لیکن آج کے دور میں کتابوں سے دوستی کی حوالے سے قائد اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد کی ڈاکٹر سلمی ملک کا کہنا ہے کہ ’موجودہ نسل جسے ہم ’جین زی‘ کا نام دیتے ہیں ان کے پاس ریسرچ کے آپشنز بےشمار ہیں۔
’ان کو کتاب اٹھانے کی ضرورت اور خواہش اس طرح نہیں ہوتی جو ہمارے دور کا انداز تھا، آج بھی ناک میں تازہ رسالے یا ٹیکسٹ بک کی خوشبو جیسے کونے میں بیٹھی ہوئی ہو۔‘
کیا آج طلبہ کتاب کے مطالعے کو ترجیح دے پاتے ہیں؟ تو ڈاکٹر سلمی ملک صاحبہ نے اپنا مشاہدہ بانٹتے ہوئے بتایا کہ ’کتاب تو دور کی بات اگر ان کو تدریسی مقصد کے لیے کوئی فلم بھی دیکھنے کو کہا جائے تو وہ کہتے ہیں ہمیں ’شاٹس یا ریلز بتا دیں، اتنی لمبی فلم دیکھنا مشکل ہے۔‘
گویا توجہ سے بیٹھ کر دیکھنا بھی ان کے لیے دشوار ہے، یعنی ان کے لیے پڑھنا تو دور کی بات، کوئی فلم دیکھنا بھی ممکن نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایسا نہیں کہ بچوں نے کتاب اٹھانا بالکل چھوڑ دی ہے، لیکن جیسے ماضی میں اگر 30 بچے لائبریری سے کتاب لا کر پڑھتے تھے تو اب شاید 10 ایسا کرتے ہوں۔‘
یاد رہے کہ جس ’چٹکی بجاتے کلک ایبل‘ دور سے ہم گزر رہے ہیں اس میں بچے تفریح تو کیا تدریس کے لیے بھی استاد سے نوٹس کی امید لگا رہے ہوتے ہیں، از خود کسی موضوع پہ تحقیق ان کے ایجنڈے پہ کم ہی ہوتی ہے۔
صحافی سمیرہ نقوی، جو ایک ادبی گھرانے سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور جن کی ’جین زی‘ کی تین بیٹیاں تعلیم کے مراحل سے گزر چکی ہیں، وہ اپنے مشاہدے سے ’کتب خانوں سے گوگل تک سفر‘ کو بڑے دلچسپ انداز میں دیکھتی ہیں۔
’میری اپنی بیٹیاں یونیورسٹیوں میں پڑھتی رہی ہیں لیکن ان میں سے ایک کو ہی میں نے کتاب سے جڑے رہتے دیکھا، جو کسی بھی موضوع کی تحقیق کے لیے صرف نوٹس پہ ہی اکتفا نہیں کرتی ہیں۔‘
کیا سکولوں کو ابتدا سے سبق کے سیاق و سباق اور مواد کے بارے میں بچوں کو کتاب سے تحقیق کا عادی بنانا چاہیے تو سمیرہ نقوی نے اس سے اتفاق کیا کیونکہ ’جین زی‘ ہر چیز کا فوری حل ڈھونڈ لاتی ہے جس میں معلومات کی ’تصدیق یا ویریفیکیشن‘ کا فقدان اپنی جگہ رہ جاتا ہے، جو آج کی نسل کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق دیہی علاقوں میں 450 ’بوگس لائبریرز‘ ہیں لیکن کیا یہ ہر پڑھنے والے طالب علم کی دسترس میں ہیں؟ تو ہنزہ کی رہائشی اور براڈ کاسٹر محترمہ زاہدہ کا کہنا تھا کہ ’میرے بچپن میں تو پرائمری کے بعد گاؤں میں گرلز سکول بھی نہیں تھا، سو مجھے آٹھویں تک تعلیم کے لیے دوسری گاؤں جا کے اپنے ننہیال میں دو سال گزارنے پڑے اور وہاں ہمارے سکول کے احاطے کے ایک کونے میں بنا کمرہ لائبریری کہلاتا تھا، جہاں کبھی کبھار کچھ کتابیں ہوتیں لیکن جب بھی کوئی کتاب مل جاتی ہم شوق سے پڑھتے اور ہمارے لیے آج بھی کتاب کی اہمیت و قدر بہت زیادہ ہے۔
’اب گاؤں میں لائبریری تو نہیں لیکن انٹرنیٹ کے پیکجز سے پڑھائی میں سہولت دیکھی جا سکتی ہے۔ میں اب اسلام آباد میں مقیم ہوں آج میرے بچے انٹرنیٹ سے ہی تحقیق و تدریس کا کام لیتے ہیں۔‘
ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 32 فیصد آبادی کو انٹرنیٹ کی سہولت حاصل ہے جبکہ دنیا بھر میں 97 فیصد افراد انٹرنیٹ صارفین مانے جاتے ہیں، ایسے میں کتب خانوں کا کردار کیا رہ جاتا ہے اور کیا طلبہ امتحانوں میں جامع مواد لکھ پاتے ہیں؟
قائد اعظم یونیورسٹی کی ڈاکٹر سلمی ملک کا کہنا تھا کہ ’کووڈ کے دوران جب تدریسی عمل آن لائن پر منتقل کر دیا گیا تھا تو اکثر چاغی میں کسی گاؤں کے ٹیلے پہ بیٹھا طالب علم تو کلاس لے رہا ہوتا جبکہ برابر والے کمرے میں بیٹھا شہر کا طالب علم انٹرنیٹ کنیکشن میں مسئلے کا بتا رہا ہوتا۔
’پھر جب دوبارہ سکول کالجوں میں باقاعدہ کلاسیں بحال ہوئیں تو بھی بچوں سے دوران امتحان ہم کتنے ہی گیجٹس پکڑ لیں وہ کہیں نہ کہیں سے اپنا کام چلا لیا کرتے ہیں۔
’جین زی ہم سے کہیں آگے ہے لیکن کتاب کی تحقیق سے جو مواد ہم اکھٹا کر پاتے ہیں وہ گہرائی سرچ انجنز سے حاصل نہیں ہو سکتی۔‘
بقول جانب افتخار عارف ’کیا اب وہ وقت آنے والا ہے کہ جب لائبریریاں ختم ہو جائیں گی اور کیا گھروں میں جس طرح گھڑیاں، کیمروں اور ذاتی ڈائریاں لکھنے کا رواج ختم ہوا اسی طرح ذاتی کتب کی کلیکشن بھی معدوم پڑ جائیں گی اور گوگل آرٹیفیشل انٹیلی جنس اپنی جڑیں گہری کرتے چلے جائیں گے۔‘
سو دیکھنا یہ ہو گا کہ ہماری ترقی کا محور ’سکرینیں ہیں یا کتابیں!‘
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔