وہ کام جو انگریز نہ کر سکا، گنگا رام نے کر دکھایا

سر گنگا رام نے 1914 میں لاہور میں ’وِڈو ری میریج ایسوسی ایشن‘ کی داغ بیل ڈالی، جس کے اراکین کے ذمے لگایا گیا تھا کہ وہ ہر روز ایک بیوہ کی شادی رجسٹر کریں گے۔

سر گنگا رام کو ان کے رفاحی کاموں کی وجہ سے ’فادر آف لاہور‘ کہا جاتا ہے (پبلک ڈومین)

سر گنگا رام برطانیہ کے دورے پر تھے۔ جولائی 1922 میں ان کی گاڑی خطرناک حادثے کا شکار ہوتی ہے۔ اس زمانے کی گاڑیوں میں جان بچانے کے آلات نصب نہ ہونے کے باعث حادثات زیادہ جان لیوا ثابت ہوتے تھے۔ یہ حادثہ بھی کچھ ایسا ہی تھا، مگر سر گنگا رام کی خوش قسمتی کہ وہ مکمل محفوظ رہے اور انہیں کوئی چوٹ بھی نہیں آئی۔

اس حادثے کے بعد انہوں نے ’وِڈو سبھا‘ لاہور کے سیکرٹری کے نام ایک خط لکھا: ’خدا نے مجھے موت کے شکنجے سے بچا لیا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ مجھ سے مزید کام لینا چاہتا ہے۔ بہت اچھا! اگر ایسا ہے تو اپنے کام کی رفتار بڑھا دیں۔‘

یہ واقعہ بی پی ایل بیدی کی لکھی ہوئی سر گنگا رام کی سوانح عمری ’سر گنگا رام ۔ صحرا کی فصل‘ میں تحریر ہے۔

گنگا رام، جنہوں نے غریبوں کے علاج کے لیے ہسپتال بنوائے، تعلیمی ادارے قائم کیے، انہیں پہلے ہنر دیا اور پھر روزگار بھی۔ ایسے رفاحی کاموں کی وجہ سے انہیں ’فادر آف لاہور‘ کہا جاتا ہے اور انہیں اپنی کسی نیکی کی قبولیت کا یقین تھا تو وہ ’وِڈو سبھا‘ تھی۔

وِڈو( Widow) سبھا کیا تھی؟

ہندو سماج میں خاوند کی میت کے ساتھ اس کی بیوی کو بھی ستی کیا جاتا تھا۔ جب انگریز ہندوستان میں آیا تو اسے یہ رسم خاصی قبیح معلوم ہوئی اور اس لیے 4 دسمبر 1829 کو ہندوستان کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹنگ نے اسے قابل تعزیر جرم قرار دے دیا۔ یہی نہیں بلکہ انگریزوں نے 1856 میں ایک اور قانون بنایا، جس میں ہندو بیوہ خواتین کو دوبارہ شادی کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تاہم اس قانون میں ایک سقم موجود تھا کہ عورت اگر اپنی مرضی سے ستی ہونا چاہے تو معاملہ مختلف ہوتا تھا، جس کی وجہ سے اونچی ذات کے ہندوؤں میں یہ رواج تقسیم کے بعد تک موجود رہا اور 1987 میں سابق انڈین وزیراعظم راجیو گاندھی کی حکومت نے ستی پر مکمل پابندی عائد کر دی۔

1911 کی مردم شماری کے مطابق انڈیا کی کل آبادی تقریباً 32 کروڑ تھی۔ بیواؤں کی تعداد دو کروڑ 60 لاکھ تھی، جن میں سے دو کروڑ 10 لاکھ ہندو جب کہ اکثریت کم عمر بیواؤں کی تھی اور پانچ سال سے کم عمر کی ہر 72 لڑکیوں میں سے ایک شادی شدہ تھی۔

تب ہندوستان میں 25 لاکھ بیواؤں کی عمر 10 سال سے کم تھی، یعنی لڑکیاں پیدا ہوتے ہی رشتوں میں باندھ دی جاتی تھیں اور بالغ ہونے کے بعد ان کی رخصتی کر دی جاتی تھی۔

اگر رخصتی سے پہلے ہی ان کا خاوند طبعی یا غیر طبعی موت کا شکار ہو جاتا تو انہیں باقی زندگی اکیلے ہی نہیں بلکہ ایسے حالات میں گزارنا ہوتی جو ناگفتہ بہ تھے۔ طاعون آئے یا قحط خاوند مرتا تو بیوی بھی جیتے جی مر جاتی تھی۔

یہ صورت حال گنگا رام کے لیے خاصی تشویش کا باعث تھی۔ انہوں نے اس سلسلے میں کچھ کرنے کی ٹھانی اور دسمبر 1914 میں ’وِڈو ری میریج ایسوسی ایشن‘ کی داغ بیل ڈالی اور خود اس کے پہلے چیئرمین بنے۔ گوالمنڈی لاہور میں ایسوسی ایشن کا دفتر بھی قائم کیا گیا اور ایسوسی ایشن کے اراکین کے ذمے لگایا گیا کہ وہ ہر روز ایک وِڈو کی شادی رجسٹر کریں گے۔

جلد ہی یہ  کام ایک سماجی تحریک میں بدل  گیا، جس کا دائرہ پہلے پنجاب اور پھر پورے ہندوستان تک پھیلا دیا گیا۔ جس تحریک کا آغاز لاہور سے ہوا تھا اب پورے ہندوستان میں اس کے 425 دفاتر قائم ہو چکے تھے۔ پہلے سال جو سبھا صرف 12 شادیاں کروا سکی آئندہ 18 سالوں میں اس نے 39 ہزار 439 شادیاں کروا کر اس بت کو توڑ دیا، جو سماج کے ذہنوں میں ایک قبیح روایت کی صورت پیوست ہو چکا تھا۔

ہندو ازم میں بیوہ ہونے کا مطلب کیا تھا؟

انگریز نے ستی ہونے پر تو پابندی لگا دی تھی اور بیواؤں کو دوسری شادی کی بھی اجازت دے دی تھی مگر سماجی روایات اتنی سخت تھیں کہ یہ زنجیریں ٹوٹنے پر نہیں آرہی تھیں۔ بیوہ کے سر کے بال کاٹ دیے جاتے۔ اس کی سماجی زندگی ختم ہو کر رہ جاتی اور وہ عملاً ایک قیدی کی سی زندگی گزارتی۔ کسی شادی بیاہ یا میلے ٹھیلوں میں اس کی شرکت پر پابندی ہوتی اور خوشی کے موقعوں پر اس کی شمولیت منحوس تصور کی جاتی۔

نتیجتاً ایسے موقعوں پر وہ گھر کے کسی کونے میں دبک کر بیٹھ جاتی۔ یہ حال صرف ان خواتین کا نہیں تھا، جن کے خاوند ان کی شادی کے بعد مر جاتے تھے بلکہ ان کم سن لڑکیوں کا بھی تھا، جن کی شادی تو کم عمری میں ہی کر دی گئی تھی، مگر ابھی وہ نابالغ تھیں کہ بیوہ ہو گئیں۔

سماج سمجھتا تھا کہ یہ ان کے پچھلے جنم میں کیے گئے گناہوں کا خمیازہ ہے اس لیے انہیں خوراک بھی بہت کم دی جاتی اور بناؤ سنگھار کی اجازت بھی نہیں دی جاتی تھی۔ انہیں اگر کسی چیز کی اجازت تھی تو وہ صرف پوجا پاٹ تھی۔ وہ ساڑھی تو پہن سکتی تھیں مگر سفید رنگ کے علاوہ دوسرے کسی رنگ کی اجازت نہیں تھی۔ وہ زیورات بھی نہیں پہن سکتی تھیں۔

بیوہ خواتین کو اپنے پاؤں پر کھڑا کیا

انگریز کا قانون سماج میں بے اثر ثابت ہو رہا تھا کہ ایسے میں گنگا رام نے تبدیلی کا بیڑہ اٹھایا۔ اس نے بیواؤں کی شادیاں شروع کروا کر صدیوں سے چلی آئی روایت کو توڑ دیا تھا لیکن انہیں کئی چیلنجز درپیش تھے۔

ایک بڑی تعداد ایسی بیواؤں کی تھی، جن کی شادی کی عمریں گزر چکی تھیں اور بہت سی ایسی تھیں جو اپنے بچوں کی وجہ سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

گنگا رام نے ایسی خواتین کو معاشی خودمختاری دینے کے لیے ان کے لیے ’وِڈو ہوم‘ سکیم پیش کی، جہاں انہیں تربیت دے کر گھریلو دستکاریاں سکھائی جاتیں اور پڑھا کر انہیں ٹیچر بنایا جاتا۔ حکومت نے یہ سکیم منظور کر لی اور لاہور میں ایک انڈسٹریل سکول جس میں ہوسٹل کی سہولت بھی میسر تھی قائم کر دیا۔ اس تعلیمی ادارے کے لیے جگہ گنگا رام نے فراہم کی تھی۔

یہاں داخل ہونے والی بیواؤں کو مفت تعلیم و تربیت کے ساتھ ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا تھا۔ بعد میں گنگا رام نے ایسی خواتین کے لیے ایک انڈسٹریل سکول بھی بنایا، جہاں سے فارغ ہونے والی ہزاروں خواتین کی زندگیاں بل گئیں اور وہ اپنے اور اپنے خاندانوں کے لیے کفالت کا ذریعہ بن گئیں۔

آج بھی سماج میں خواتین کو با اختیار بنانا کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ انڈیا میں پانچ کروڑ کے قریب خواتین بیوہ ہیں۔ پاکستان ہو یا انڈیا خواتین کو بااختیار بنانے کی تحریک کے بانی گنگا رام ہیں، جنہوں نے سو سال پہلے وہ کر دکھایا، جس پر اس وقت بات کرنا بھی ممنوع تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ