کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جمعرات کو ایک بار پھر کہا ہے کہ کینیڈا کے پاس یہ ماننے کے لیے ’قابل اعتماد وجوہات‘ موجود ہیں کہ کینیڈا کی سرزمین پر علیحدگی پسند سکھ رہنما کے قتل میں انڈین حکومت کے ایجنٹ ملوث ہیں۔
کینیڈین وزیر اعظم پر مذکورہ ثبوت جاری کرنے کے لیے دباؤ بڑھ گیا ہے۔
ہردیپ سنگھ نجر، جو کینیڈین شہری اور انڈیا میں مطلوب دہشت گرد ہیں، کو گولی مار کر کیے گئے قتل نے انڈیا اور کینیڈا کے درمیان تعلقات کو خراب کر دیا ہے کیوں کہ کینیڈا نے رواں ہفتے نئی دہلی پر اس قتل میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔
انڈیا ان الزامات کی تردید کر چکا ہے۔ انڈیا نے جمعرات کو اپنے قونصل خانوں کو لاحق ’سکیورٹی خطرات‘ کی وجہ سے تمام کینیڈین شہریوں کے لیے تمام زمروں میں ویزا خدمات غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر کے ان الزامات کا جواب دیا۔ جوابی کارروائی کے طور پر دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ایک ایک سینیئر سفارت کار کو ملک بدر کر دیا۔
نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقعے پر پریس کانفرنس میں جسٹن ٹروڈو کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا کی اہمیت بڑھ رہی ہے اور وہ ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ ہمیں کام جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ اور ہم اشتعال انگیزی یا مسائل پیدا کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’لیکن ہم قانون کی حکمرانی کی اہمیت کے معاملے میں واضح ہیں اور کینیڈا کے شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے ہمارا مؤقف دوٹوک ہے۔
’ہم انڈین حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لے اور اس ضمن میں مکمل شفافیت، احتساب اور انصاف کو یقینی بنانے کے لیے ہمارے ساتھ مل کر کام کرے۔‘
کینیڈین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کی رپورٹ کے مطابق نجر کے قتل کی تین ماہ تک جاری رہنے والی تحقیقات میں جو معلومات اکٹھی کی گئیں ان میں انڈین حکام کے رابطے بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رپورٹ میں نامعلوم ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے ڈالے جانے والے دباؤ پر کسی بھی انڈین اہلکار نے اس ’الزام کی تردید نہیں کی‘ کہ نجر کی موت میں بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔
کینیڈا کے ایک عہدے دار نے امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو الگ سے بتایا کہ کینیڈا میں سفارت کاروں کی نگرانی کی بنیاد پر سکھ رہنما کے قتل میں انڈیا کے ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا۔ اس سلسلے میں ایک بڑے اتحادی ملک نے خفیہ معلومات بھی فراہم کیں۔
کینیڈین اہلکار کے مطابق ان رابطوں میں کینیڈا میں انڈین اہلکار اور سفارت کار شامل تھے اور کچھ معلومات خفیہ معلومات شیئر کرنے والے اتحاد ’فائیو آئیز‘ کے رکن ایک ملک نے فراہم کیں۔ اس اتحاد میں کینیڈا سمیت امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔
امریکہ نے جمعرات کو اس بات کی تصدیق کی کہ وہ نجر کی موت کے حوالے سے نئی دہلی سے بات کر رہا ہے جب کہ واشنگٹن کے اتحادیوں کے درمیان سفارتی تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جیک سلیون نے ٹروڈو کے دھماکہ خیز بیان کے بارے میں سوال پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اس طرح کی کارروائیوں کے معاملے میں آپ کو کوئی خاص استثنیٰ حاصل نہیں ہوتا۔ یہ ہمارے لیے تشویش کی بات ہے یہ ایک ایسا معاملہ ہے جسے ہم سنجیدگی سے لیتے ہیں۔‘
فنانشنل ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق قبل ازیں رواں مال امریکی صدر جو بائیڈن اور ’فائیو آئیز‘ کے متعدد ارکان نے جی 20 اجلاس کے دوران انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنے نجر کے قتل کا معاملہ اٹھایا۔ انڈین وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ کینیڈا نے سکھ رہنما کے قتل کے بارے میں کوئی خاص معلومات شیئر نہیں کیں۔
ثبوتوں کے بارے میں سوال پر ٹروڈو نے کہا کہ ’مضبوط اور آزاد نظام انصاف والے ملک کی حیثیت سے ہم اس عدالتی عمل کو انتہائی دیانت داری کے ساتھ سامنے لاتے ہیں۔‘
© The Independent