کینیڈا میں انڈیا کے ویزا پروسیس سینٹر نے جمعرات کو کہا کہ انہیں ویزہ کی درخواستوں پر کام روکنے کو کہا گیا ہے۔
انڈیا اور کینیڈا کا سفارتی تنازع اس وقت شروع ہوا جب کینیڈین وزیراعظم نے پیر کو اعلان کیا کہ تین ماہ قبل سکھ علیحدگی پسند ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں انڈین حکومت کے ایجنٹوں کے ملوث ہونے کے ’قابل اعتماد الزامات‘ ہیں۔
اس مسئلے کی سنگینی ابھی تھمی نہیں تھی کہ جمعرات کو ویزا سروس فراہم کرنے والی انڈین کمپنی بی ایل ایس انٹرنیشنل نے اس حوالے سے ایک نوٹس اپنی ویب سائٹ پر لگا دیا ہے۔
انڈین کمپنی بی ایل ایس انٹرنیشنل نے اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کیا تھا، ’آپریشنل وجوہات کی بنا پر 21 ستمبر 2023 سے انڈین ویزا سروس کو آئندہ نوٹس تک معطل کردیا گیا ہے۔ مزید معلومات کے لیے بی ایل ایس کی ویب سائٹ دیکھتے رہیں۔‘
اس سلسلے میں انڈیا کی وزارت خارجہ کی جانب سے فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق نئی دہلی میں بی ایل ایس کے ایک عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کا کہتے ہوئے پبلیکیشن کو انڈین حکام سے رابطہ کرنے کا مشورہ دیا۔
18 جون کو برٹش کولمبیا کے شہر سرے میں نجر کوایک گردوارے کی پارکنگ میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اس واقعے کے ٹھیک تین ماہ بعد پیر کو ہاؤس آف کامنز میں کینیڈین وزیر اعظم نے الزام لگایا کہ اس قتل میں ’انڈین حکومت کے ایجنٹ‘ ملوث ہیں۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے انڈیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان الزامات کو ’انتہائی سنجیدگی‘ سے لے کہ جون میں وینکوور کے قریب ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں انڈین ایجنٹوں نے کردار ادا کیا تھا۔
نتیجتاً دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفیروں کو بے دخل کر دیا ہے جبکہ انڈیا نے نجر کے قتل میں اپنے کسی بھی قسم کے کردار سے انکار کیا۔
ویزا سروس کی معطلی سے ایک روز قبل انڈین وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ وہ ’سیاسی طور پر نفرت انگیز جرائم اور مجرمانہ تشدد‘ کے باعث کینیڈا میں اپنے شہریوں کی حفاظت سے متعلق فکرمند ہیں۔
بدھ کو انڈین وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا، ’بالخصوص انڈین سفارت کاروں اور انڈین برادری کے کچھ حصوں کو دھمکیاں دی گئی ہیں جو انڈیا مخالف ایجنڈا کے خلاف ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’لہذا انڈین شہریوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ کینیڈا کے ان علاقوں اور ممکنہ مقامات کا سفر کرنے سے گریز کریں جہاں اس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں۔‘
ایڈوائزری میں ان مخصوص شہروں یا مقامات کا نام نہیں لیا گیا جہاں انڈین کو جانے سے گریز کرنا چاہیے۔
وینکوور کے مضافاتی علاقے سرے میں سکھ مندر کے باہر دو نقاب پوش حملہ آوروں نے نجر کو گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔
نجر، خالصتان کے نام سے ایک سکھ ریاست کے قیام کے لیے سرگرم کارکن تھے اور انڈین حکام کو مبینہ دہشت گردی اور قتل کی سازش کے الزام میں مطلوب تھے۔
کینیڈا کے سکھوں کے مفادات کا دفاع کرنے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم ورلڈ سکھ آرگنائزیشن آف کینیڈا کے مطابق انہوں نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
انڈین حکومت اوٹاوا پر الزام عائد کرتی ہے کہ اس نے انتہا پسند سکھ قوم پرستوں کی سرگرمیوں سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں جو شمالی انڈیا سے علیحدہ ہو کر ایک آزاد سکھ ریاست قیام چاہتے ہیں۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈیا میں کینیڈا کے ہائی کمیشن نے جمعرات کو کہا ہے کہ انہوں نے ملک میں عملے کی موجودگی کو عارضی طور پر ’ایڈجسٹ‘ کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ کچھ سفارت کاروں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر دھمکیاں موصول ہوئی ہیں۔
کینیڈین ہائی کمیشن کا بیان انڈیا کی جانب سے کینیڈا میں اپنی ویزا سروس معطل کیے جانے کے بعد آیا۔
کینیڈین ہائی کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ’موجودہ ماحول میں جہاں کشیدگی بڑھ چکی ہے، ہم اپنے سفارتکاروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔
اوٹاوا کے سفارتی اور قونصلر تعلقات کا انتظام سنبھالنے والے کینیڈین حکومت کے محکمے کا حوالہ دیتے ہوئے اس میں کہا گیا، ’کچھ سفارت کاروں کو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر دھمکیاں ملنے کے بعد گلوبل افیئرز کینیڈا انڈیا میں اپنے عملے کا جائزہ لے رہا ہے۔
’نتیجتاً، اور بہت زیادہ احتیاط کے باعث، ہم نے انڈیا میں عملے کی موجودگی کو عارضی طور پر ایڈجسٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
اس بیان میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ عملے کی موجودگی کو ایڈجسٹ کرنے کا کیا مطلب ہے۔
’ویانا کنونشن کے تحت ذمہ داریوں کے احترام کے تناظر میں ہم توقع کرتے ہیں کہ انڈیا، انڈیا میں ہمارے تسلیم شدہ سفارتکاروں اور قونصلر افسران کو اسی طرح تحفظ فراہم کرے گا جس طرح ہم یہاں انہیں کر رہے ہیں۔‘