پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے جمعے کو خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عام انتخابات اگلے برس ہونے کی امید ہے جبکہ ساتھ ہی انہوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت کو ہروانے کے لیے انتخابی نتائج میں فوج کی مداخلت کے امکان کو بھی مسترد کیا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو دیے انٹرویو میں انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ’عام انتخابات الیکشن کمیشن کروانے جا رہا فوج نہیں، اور چیف الیکشن کمشنر کو عمران خان نے مقرر کیا، تو ’وہ آخر کیوں ان کی مخالفت کریں گے؟‘
نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا تعین کرے گا تو ان کی حکومت تمام تر معاونت کرے گی جس میں مالی معاونت اور سکیورٹی کی فراہمی سمیت دیگر متعلقہ ضروریات پورا کرنا شامل ہے۔
’کیا وہ چاہیں گے کہ جج عمران خان کو سنائی گئی سزا ختم کر دیں تاکہ وہ الیکشن لڑ سکیں؟‘ اس سوال پر پاکستان کے نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ عدلیہ کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کریں گے۔ انہوں نے زور دیا کہ ’کسی بھی طرح کے سیاسی مقاصد کے لیے عدلیہ کو آلہ کار نہیں بنایا جانا چاہیے۔‘
انوار الحق کاکڑ کے بقول ’ہم کسی سے سیاسی انتقام نہیں لے رہے لیکن ہاں! قانون پر عمل ہونا چاہیے۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ عمران خان یا کوئی دوسرا سیاست دان جو بھی اپنے سیاسی رویے سے قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اس صورت میں قانون کی عملداری یقینی بنائے جائے گی۔ ہم اسے سیاست کی بنیاد پر امتیازی سلوک قرار نہیں دے سکتے۔‘
انہوں نے مئی میں عمران خان کی پہلی بار گرفتاری کے بعد ملک بھر میں دوڑنے والی تشدد کی لہر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان یا ان کی جماعت کے ان سینکڑوں کارکنوں کے بغیر منصافانہ انتخابات ہو سکتے ہیں جو توڑ پھوڑ اور آتش زنی سمیت غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے جیل میں ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان کی پارٹی کے ہزاروں کارکن جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوئے وہ ’سیاسی عمل کو آگے بڑھائیں گے۔ وہ الیکشن میں حصہ لیں گے۔‘
فوج کے ساتھ قریبی تعلقات کے بارے میں پاکستان کے نگران وزیر اعظم نے کہا کہ یہ الزامات ’ہماری سیاسی ثقافت کا حصہ ہیں‘ جس پر وہ کوئی توجہ نہیں دیتے ہیں۔ انہوں نے فوج کے ساتھ اپنی حکومت کے تعلقات کار کو ’بہت متوازن‘ اور ’بہت کھلا اور واضح‘ قرار دیا۔
انوار الحق کاکڑ کے مطابق ’ہمیں سول ملٹری تعلقات کے چیلنجز ضرور درپیش ہیں، میں اس سے انکار نہیں کر رہا۔‘ لیکن اس عدم توازن کی بہت مختلف وجوہات ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک ماہ حکومت کی قیادت کرنے کے بعد ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں سول اداروں کی حالت ’گذشتہ کئی دہائیوں سے کارکردگی کے اعتبار سے خراب ہوئی ہے، لیکن فوج منظم ادارہ ہے جس میں تنظیمی صلاحیتیں موجود ہیں اور ادارے میں گذشتہ چار دہائیوں میں بہتری آئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ سول اداروں کو بتدریج بہتر بنانے سے سے حل ہو گا ’بجائے اس کے کہ ملک کی فوج کو کمزور کیا جائے کیوں اس سے ہمارا کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انوار الحق کاکڑ نے دوران انٹرویو کہا کہ انڈیا نے کشمیر میں نو لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور وہاں کے عوام ایک ’بڑی جیل‘ میں بند ہیں جنہیں کوئی سیاسی حق حاصل نہیں ہے۔ یہ صورت حال اقوام متحدہ کے منشور کے تحت حق خودارادیت اور اقوام متحدہ کے ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے والی قرارداد کی خلاف ورزی ہے۔
ان حالات میں کہ جب دنیا کی توجہ یوکرین پر مرکوز ہے، انہوں نے کہا کہ کشمیر ’ایک ایسا بحران ہے جس کا بنیادی جغرافیہ غلط ہے۔‘ انہوں نے سوال کیا کہ اگر کشمیر یورپ یا شمالی امریکہ میں ہوتا تو پھر بھی اس کے حل میں ان کے مطابق ’بے حسی پر مبنی رویہ‘ اختیار کیا جاتا؟
امریکہ اور نیٹو کے انخلا کے بعد 2021 سے طالبان کے زیر اقتدار ہمسایہ ملک افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے بارے میں کاکڑ نے پاکستانی طالبان یا ٹی ٹی پی، داعش اور دیگر انتہا پسند گروہوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی طرف سے ’کچھ سنگین سیکیورٹی چیلنجز درپیش ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کی حکومت نے افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کی قیادت اور جنگجوؤں کی حوالگی کی درخواست کی ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ کابل میں حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں لیکن ’اس بارے میں کچھ بھی نہیں ہے جو میں آپ کے ساتھ شیئر کر سکوں۔‘
پاکستان کے سب سے کم آبادی والے اور کم ترقی یافتہ صوبے سے پہلی بار سینیٹر بننے والے انوار الحق کاکڑ نے نگران وزیر اعظم پاکستان کا عہدہ سنبھالنے کے حوالے سے کہا کہ ’یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ میں کبھی اس کا مستحق نہیں تھا. یہ صرف اللہ کا احسان ہے۔‘