اکثر مصنف اپنے گھر میں کمپیوٹر کے سامنے بیٹھ کر لکھتے ہیں۔ انھیں زیادہ سے زیادہ یہ خطرہ ہوتا ہے کہ کرسی پر مسلسل بیٹھے رہنے سے ان کی کمر میں درد نہ شروع ہو جائے۔ لیکن کچھ مصنف ایسے ہوتے ہیں جو تحریر میں حقیقت کا رنگ لانے کے لیے اپنی جان جوکھم میں ڈال لیتے ہیں۔
صدور اور وزراِئے اعظم کے بارے میں لکھنا ایک بات ہے، لیکن مائیکل سکاٹ مور نے اپنے لیے بحری قزاقوں کا موضوع چنا۔ انھیں قزاقوں کے بارے میں ایک فیچر لکھنا تھا سو انھوں نے سوچا کہ کیوں کہ کسی قزاق کا انٹرویو کر لیا جائے۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کی تفصیل آپ کو ان کی کتاب ’صحرا و سمندر‘ میں مل سکتی ہے۔ یہ کتاب کس بارے میں ہے؟ اس کا کچھ اشارہ کتاب کے سرورق ہی سے مل جاتا ہے، جس پر کتاب کے عنوان کے نیچے درج ہے: ’صومالیہ کی سرحد پر قزاقوں کی قید میں 977 دن۔‘
جب آپ قزاقوں کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کے ذہن میں کیا تصویر ابھرتی ہے؟ جونی ڈیپ؟ ایک آنکھ پر پٹی؟ مگر میرے لیے سب سے اہم ایک لفظ ہے: ’سرپھرا۔‘ کھلے سمندر کے غنڈے تو یہ ہیں ہی، لیکن ساتھ ہی قزاق رومانوی من چلے، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے، زبردست شمشیر زن بھی ہوتے ہیں۔ مائیکل سکاٹ مور نے ان کی قید میں تین سال گزار کر ان کی زندگیوں کے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس دوران وہ ملیریا اور پاگل پن کا شکار ہوئے اور خودکشی کی کوشش بھی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ قزاق ایک ایسا طبقہ ہے جہاں جان خطرے میں ڈالنا معمول کی بات ہے اور گلیاں گولیوں کی آوازوں سے گونجتی رہتی ہیں۔
مائیکل سکاٹ مور امریکی تاریخ سے خوب واقف ہیں اور اس پر کتاب بھی لکھ چکے ہیں، کہتے ہیں کہ قزاقی امریکی تاریخ میں بھی موجود ہے۔ ’شمالی امریکہ تین نسلوں کے اندر اندر قزاقوں کی پسماندہ آماج گاہ سے ترقی کر کے عالمی طاقت بن گیا۔‘
میں نے انھیں صومالیہ جانے سے قبل بھی دیکھا تھا۔ وہ صحت مند اور پرجوش شخصیت کے مالک تھے۔ پھر میں نے حال ہی میں انھیں نیویارک کے ایک کیفے میں دیکھا۔ اب ان کی عمر 49 برس ہو چکی ہے اور وہ ریٹائرڈ فوجی لگتے ہیں، جسم زخموں سے نشانوں سے بھرا ہوا، دبلے پتلے، صدموں کے مارے، لیکن پھر بھی زندگی سے بھرپور۔ انھوں نے کہا کہ جب انھوں نے قزاقوں پر کتاب لکھنے کے بارے میں سوچا تو کتاب ’خالص رپورٹنگ سے بڑھ کر میرے اغوا ہونے کے بعد ذاتی نوعیت کی ہو گئی۔‘
جب آپ اغوا ہو جاتے ہیں تو آپ کی ساری زندگی کی فلم آپ کے دماغ میں چلنا شروع ہو جاتی ہے۔ ان کے والد ایروسپیس انجینیئر اور عادی شرابی تھے اور انھوں نے اس وقت خودکشی کر لی جب مور کی عمر 12 برس تھی۔ ماں نے بتایا کہ وہ دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہوئے ہیں۔ مور کو 30 سال بعد اس وقت حقیقت کا پتہ چلا جب انھوں نے اپنے والد کا ڈیتھ سرٹیفیکیٹ دیکھا۔ ’سینے پر گولی۔‘ خودکشی کی وجہ گھریلو مسائل تھی۔
مور کو شروع ہی سے قزاقوں سے دلچسپی تھی۔ وہ جرمنی کے شہر برلن آ بسے اور انھوں نے اخبار دیر شپیگل میں قزاقوں کی سرگرمیوں کے بارے میں لکھنا شروع کر دیا۔ اس دوران انھوں نے ہیمبرگ میں 2011 میں دس قزاقوں کے مقدمہ بھی دیکھا۔ یہ جرمن سرزمین پر قزاقوں کے خلاف 400 برس میں پہلا مقدمہ تھا۔ ان قزاقوں کو ایک جرمن جہاز کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ولندیزی کمانڈوز نے پکڑ لیا تھا۔
مور کہتے ہیں: ’میں کسی بھی امریکی بچے کی طرح قزاقوں کے سحر میں گرفتار تھا۔‘ انھیں معلوم تھا کہ پائریٹس آف دا کیربیئن کی فلمیں خالص ہالی وڈ کی پیداوار ہیں، اور وہ جاننا چاہتے تھے کہ اصل قزاق کیسے ہوتے ہیں۔ مور اس سے پہلے ایک ترک جہاز پر قرنِ افریقہ کا چکر لگا چکے تھے۔
جنوری 2012 میں دو رسالوں کی طرف سے گرانٹ ملنے کے بعد انھوں نے دوبارہ افریقہ کا سفر اختیار کر لیا۔ وہ جانتے تھے کہ انھیں کیا خطرات درپیش ہیں اس لیے انھوں نے احتیاطاً اپنے اغوا کی انشورنس حاصل کرنے کی کوشش کی جو مسترد ہو گئی۔ انھوں نے محافظوں کی خدمات حاصل کیں لیکن وہ عین موقعے پر دغا دے گئے۔ دراصل انھی محافظوں نے انھیں آگے بیچ ڈالا تھا۔ انھوں نے محافظوں کو بڑی رقم دی تھی لیکن قزاقوں کی دی گئی رقم زیادہ بڑی تھی۔ اور دوسری بات یہ کہ محافظ بھی قزاقوں ہی کے قبیلے کے تھے۔
انھوں نے صومالیہ کے شہر ہوبیو کے ایک مکھی زدہ ریستوران میں مصطاف نامی ایک قزاق کا انٹرویو کیا۔ انھیں یہاں لنچ کے لیے 620 ڈالر کا بل ادا کرنا پڑا۔ وہ واپس جا رہے تھے کہ ایک درجن مسلح افراد نے ان کی گاڑی روک لی۔ انھیں مارا پیٹا گیا، ان کی عینک توڑ دی گئی اور انھیں قزاقوں کی مقبول گاڑی لینڈکروزر میں ڈال دیا گیا۔
ایک قزاق نے ان سے یہ تک کہا: ’غلطی تمھاری ہے۔‘ یہ فقرہ مور کو آج تک ستاتا ہے۔ قید کے دوران انھیں احساس ہوا کہ اس قزاق نے ٹھیک کہا تھا۔ ’میں ایک لمبا، سفید فام شخص تھا جو قزاقوں سے دوستی کرنا چاہتا تھا۔ یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا تھا۔‘
بطور مصنف مور تھوڑے بہت جانے پہچانے جاتے تھے اس لیے ان کی قیمت بھی زیادہ تھی۔ ایک قزاق نے کہا: ’میں نے تمھیں انٹرنیٹ پر دیکھا ہے۔ تم مشہور ہو۔‘ انھوں نے تردید کی، لیکن وہ نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی مور کی ایک تصویر لے آئے۔ ان کے تاوان کی رقم دو کروڑ ڈالر مقرر کی گئی۔ ان کے دوستوں کو جلد تاوان کی رقم کے بارے میں مطلع کیا گیا لیکن انھیں خبردار کیا گیا تھا کہ وہ میڈیا کو اس بارے میں نہ بتائیں۔ جب بھی بی بی سی پر ان کی خبر آتی، تاوان کی رقم میں اضافہ ہو جاتا۔
انھیں بار بار مارا پیٹا جاتا تھا، اور شدت پسند تنظیم الشباب کے حوالے کرنے کی دھمکی دی جاتی تھی۔ لیکن سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ قید میں ان کے پاس پڑھنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ پہلے چند ماہ تک وہ گلف نیوز کے ان ٹکڑوں کو جوڑ جوڑ کر پڑھا کرتے تھے جن میں قزاق ان کے لیے سموسے لایا کرتے تھے۔ پھر انھیں سمندر میں لنگر انداز ایک جہاز پر لے جایا گیا جہاں ایک اور مغوی نے انھیں بائبل کا ایک نسخہ دیا۔ انھوں نے عینک کے بغیر آنکھیں چندھیا کر دو بار یہ کتاب پڑھ ڈالی تاہم حضرت عیسیٰ کے مصلوب کرنے کا واقعہ انھیں پسند نہیں آیا۔
جہاز پر بہت سے پہرے دار تھے اور اسے قزاقی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آس پاس کے پانی شارکوں سے گھرے ہوئے تھے۔ بغیر عینک کے انھیں مشکل سے نظر آتا تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی ایک دن انھوں نے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ انھیں پکڑ لیا گیا اور اگلے تین ہفتے قیدِ تنہائی میں رکھا گیا۔ اس دوران ایک خبر آئی کہ انھیں فرار کی کوشش کے دوران گولی مار کر زخمی کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر قزاقوں نے خود مشہور کروائی تھی اور اس کا مقصد تاوان کی رقم کی ادائیگی میں تیزی لانا تھا۔
اسی دوران مور کے دل میں شدت سے خواہش پیدا ہوئی کہ کاش وہ خلاباز ہوتے۔ یا کچھ بھی ہوتے، لیکن مصنف نہ ہوتے۔ بچپن میں ان کے کمرے کی دیواریں خلابازوں اور چاند تاروں کی تصویروں اور کھلونا راکٹوں سے ڈھکی ہوئی ہوتی تھیں۔ اب انھیں بحری جہاز میں گرفتار ہو کر انھیں یہ ڈروانے خواب ستاتے تھے کہ انھیں بچانے کے لیے کوئی نہیں آئے گا۔ لیکن اسی دوران ان کے دل میں ایک خیال آیا۔
محافظ عام طور پر اپنی کلاشنکوفیں ادھر ادھر چھوڑ دیتے تھے۔ وہ ایک کلاشنکوف اٹھا کر بھاگنے کی کوشش کر سکتے تھے۔ کامیابی کے امکانات صفر تھے لیکن کم از کم وہ ایک دو قزاقوں کو تو ٹھکانے لگا ہی لیتے، اور ان پر برسنے والی گولیاں انھیں قید کی اذیت سے فوری چھٹکارا دلا دیتیں۔
تاہم ان کے والد کی خودکشی کے خیال نے انھیں اس کوشش سے باز رکھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی والدہ کو اپنی زندگی میں آنے والے دو عزیز ترین افراد کی خود اپنے ہاتھوں تباہی کا صدمہ اٹھانا پڑے۔ ان کی ماں ان کی کتاب کی ہیرو ہیں۔ وہ جرمن نژاد ہیں اور بڑھاپے میں بھی ٹینس اور گالف کھیلتی ہیں۔ ایک دن ایف بی آئی کے پانچ اہلکار ان کے گھر آئے اور انھیں مور کے اغوا اور تاوان کے مطالبے کی خبر دی۔ انھوں نے خود فون پر تاوان کی رقم میں کمی کے لیے اغوا کاروں سے مول تول شروع کر دیا۔ رقم کم ہو کر پہلے 80 لاکھ ڈالر تک آئی، پھر 50 لاکھ تک، اور آخر میں 15 لاکھ تک۔ آخر میں انھوں نے ایک کرائے کے فوجی کی خدمات حاصل کیں جس نے سات لاکھ ڈالر اغواکاروں کو دینا تھے۔ یہ رقم انھوں نے دوستوں، خاندان کے افراد اور دیر شپیگل سے اکٹھی کی تھی۔
مور کہتے ہیں کہ قید کے دوران جب ان کی کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی اور انھوں نے ایک محافظ سے ڈاکٹر کو دکھانے کی درخواست کی تو اس نے گالی دے کر منع کر دیا۔ ’میں خود صومالیہ بھر میں ٹوٹی کلائی لے کر پھرتا رہا ہوں۔‘
انھوں نے دوسرے مغویوں سے دوستیاں بنانا شروع کر دیں۔ ان میں چینی، کمبوڈیائی، ویت نامی اور فلپینو تھے۔
بعض اوقات آپ کا مطالعہ آپ کی زندگی بچانے کے کام آتا ہے۔ مور کو مشہور رواقی فلسفی اپکیکتوس نے بڑا سہارا دیا۔ رواقیت کا فلسفہ یہ ہے کہ آپ کی تقدیر آپ کے ہاتھوں میں نہیں ہے، لیکن اس کے بارے میں رویہ ضرور آپ کے اختیار میں ہے۔ اپکیکتوس سوال اٹھاتا ہے کہ اگر آپ کا نوکر قیمتی گلدان چکناچور کر دیتا ہے تو آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ نوکر کو کوڑے لگانا شروع کر دیں گے؟ اپکیکتوس کے مطابق بہتر طریقہ یہی ہے کہ آپ نوکر سے کہیں، ’گلدان ٹھیک کروا لیا گیا ہے۔‘ مور نے اپنی صورتِ حال سے خود محظوظ ہونا شروع کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے ذہن کو اچانک موت کے لیے تیار کرنا شروع کر دیا۔
قدیم یونانی فلسفیوں کے علاوہ ٹام اینڈ جیری کے کارٹونوں نے بھی مور کو سہارا دیا۔ اس کے علاوہ ایک شارٹ ویو ریڈیو پر خبریں سننے سے بھی مدد ملتی تھی، خاص طور پر جب 2014 کے ورلڈ کپ میں جرمنی نے برازیل کو سات ایک سے عبرت ناک شکست دی۔
مور کی کہانی میں ایک عجیب و غریب موڑ ہے۔ انھیں اذیت پہنچانے والے بہت سے لوگ مارے جا چکے ہیں، لیکن وہ خود ابھی بھی زندہ ہیں۔ ایک اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کا ایک سابق اغواکار اب ان کا فیس بک پر دوست ہے۔
ہو سکتا ہے وہ خلاباز بن جاتے، لیکن مصنف بن کر بھی انھوں نے کم ہمت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انھوں نے ایک قزاق سے قلم چوری کر کے اپنے تجربات لکھنا شروع کر دیے۔ لیکن ایک قزاق نے ان کی تحریر ضبط کر لی۔ وجہ یہ تھی کہ اس نے اس میں اپنا نام دیکھ لیا تھا۔ ایسا کئی بار ہوا۔ آخر مور نے ناول لکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے انھوں نے صومالیہ کی بجائے کیلی فورنیا کا علاقہ منتخب کیا۔
مور کے نزدیک لکھنا ہی ان کے لیے علاج ثابت ہوا اور اس کی مدد سے انھیں پاگل پن سے بچنے میں مدد ملی۔ ’تکلیف دہ واقعات کو ایک خاص ترتیب سے لکھنے سے مجھے تقویت ملی۔‘
میں نے ان سے پوچھا کہ ان 977 دنوں کی کون سی چیز انھیں یاد آتی تھی؟ ’کسی ایک چیز کا نام بتانا مشکل ہے۔ شاید بیئر، شاید تازہ پھل۔ سب سے بڑھ کر میرے خاندان کے افراد اور میرے دوست۔ میری سابقہ زندگی کی ہر چیز، بری یا بھلی۔‘
جب وہ یہ کہتے ہیں کہ روایتی صومالی قزاقی اب معدوم ہو چکی ہے تو ان کی آواز میں اداسی کا شائبہ سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ ’ان کا بزنس ماڈل بدل گیا ہے۔ اب وہ اسلحے اور انسانی سمگلنگ کا کاروبار شروع کر دیا ہے۔ قزاقی کا پیشہ اب بہت زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔‘