سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بدھ کو میڈیا میں چلنے والی ان خبروں کی تردید کردی ہے، جن میں کہا گیا تھا کہ مرکزی بینک ملک میں ڈیجیٹل کرنسی جاری کرنے جا رہا ہے۔
منگل کو بہت سے میڈیا اداروں نے اس حوالے سے خبریں شائع کی تھیں کہ حکومت پاکستان نے ’معاشی استحکام‘ اور’پرنٹنگ اورڈسٹری بیوشن کے اخراجات میں کمی‘ کے لیے سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی) کے آغاز کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلے میں سٹیٹ بینک نے ماہرین کی مدد سے کام شروع کردیا ہے، تاہم ان رپورٹس میں ڈیجیٹل کرنسی کے اجرا کی کسی تاریخ کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے جاننے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان عابد قمر سے رابطہ کیا، جنہوں نے ان میڈیا رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی بینک فی الوقت ڈیجیٹل کرنسی کے میدان میں ’امکانات کا جائزہ‘ لے رہا ہے۔
عابد قمر کا کہنا تھا: ’ڈیجیٹل کرنسی کا اجرا ابھی بہت دور کی بات ہے۔ سٹیٹ بینک اس وقت (اس میدان میں) امکانات کا جائزہ لے رہا ہے۔ نہ ابھی کوئی فیصلہ ہوا ہے اور نہ ہی کوئی پلان فائنل ہوا ہے۔‘
سٹیٹ بینک کے ایک اور عہدیدار نے بھی انڈپینڈنٹ اردو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ڈیجیٹل کرنسی کے اجرا کے حوالے سے کوئی بیان یا پالیسی جاری نہیں کی گئی۔
انہوں نے مزید کہا: ’سٹیٹ بینک میں ڈیجیٹائزیشن کی طرف جانے کے لیے بہت سے کام ہو رہے ہیں لیکن ڈیجیٹل کرنسی ایک بالکل مختلف چیز ہے۔‘
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2018 میں بٹ کوائن، پاک کوائن اور ون کوائن سمیت دیگر ورچوئل کرنسیوں، کوائنز اور ٹوکنز یا عام زبان میں کرپٹو کرنسی کے حوالے سے بینکوں کو ہدایات جاری کی تھیں وہ اس حوالے سے لین دین سے اجتناب کریں۔
سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی کیا ہے اور یہ کرپٹو کرنسی سے کیسے مختلف ہے؟
سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی (سی بی ڈی سی) کو نقد رقم کے متبادل کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور کسی بھی ملک کا مرکزی بینک اس کے اجرا اور اسے ریگولیٹ کرنے کا مجاز ہوتا ہے۔
سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی کو عام طور پر کرپٹو کرنسی کے مقابلے میں زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے کیونکہ کرپٹو کرنسی عام طور پر نجی کمپنیاں یا افراد چلاتے ہیں جبکہ سی بی ڈی سی کو ملک کے مرکزی بینک کے ذریعے کنٹرول، ٹریک اور ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور یہ نقد کرنسی کے مساوی چلتی ہے۔
پاکستان ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے کس مرحلے پر ہے؟
رواں برس جولائی میں سٹیٹ بینک کی ڈپٹی گورنر سیما کامل نے کہا تھا کہ ’ڈیجیٹل کرنسی کے حوالے سے گراؤنڈ ورک مکمل ہو چکا ہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان ایک پائلٹ چلائے گا، جسے سینڈ باکس کہا جاتا ہے تاکہ ہم اس کا بغور جائزہ لے سکیں۔‘
سیما کامل نے عرب نیوز کو بتایا تھا: ’سینڈ باکس ایک یا دو ماہ میں شروع کیا جائے گا۔‘
سینڈ باکس جدید مصنوعات، خدمات، کاروباری ماڈلزیا پروڈکٹس کی جانچ کے لیے ایک مدود اور کنٹرول شدہ ماحول کو کہتے ہیں۔
سیما کامل نے مزید کہا تھا کہ ڈیجیٹل کرنسی کا آغاز ’ہماری پانچ سالہ حکمت عملی کا حصہ ہے۔‘
ڈیجیٹل کرنسی: کون سا ملک کہاں کھڑا ہے؟
امریکہ میں واقع تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل نے رواں برس جون میں جاری کی گئی اپنی ایک تحقیق کے نتائج میں بتایا تھا کہ دنیا بھر سے 11 ممالک سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی کا اجرا شروع کر چکے ہیں جبکہ 130 ممالک اپنی کرنسیوں کے ڈیجیٹل ورژن کی جانب کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے آدھے ممالک ایڈوانس مرحلے، پائلٹ یا لانچنگ کے مرحلے پر ہیں۔
اٹلانٹک کونسل سی بی ڈی سی ٹریکر کے مطابق اب تک نائیجیریا، جمیکا، بہاماس، انگویلا اورمشرقی کیریبیئن کے سات ممالک نے اپنی سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی لانچ کی ہے جب کہ چین، انڈیا، سعودی عرب، فرانس، گھانا، کینیڈا اور یوراگوئے سمیت 21 ممالک نے اپنے پائلٹ پروجیٹکس لانچ کیے ہیں۔
سی بی ڈی سی ٹریکر کے مطابق 33 ممالک ایسے ہیں جو ڈیولپمنٹ کے مرحلے پر ہیں جبکہ پاکستان سمیت 46 ممالک ابھی اس میدان میں تحقیق کر رہے ہیں۔
سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی کا فائدہ؟
ترجمان سٹیٹ بینک عابد قمر سے جب ڈیجیٹل کرنسی کے ملکی معیشت پر اثرات کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ ہارڈ کیش کی وجہ سے زیادہ تر نقد بہاؤ (Cash Flow) ریکارڈ نہیں ہوتا، تاہم اگر ادائیگیاں ڈیجیٹل کرنسی میں ہوں گی تو اس کی ٹرانزیکشن کا ریکارڈ ہوگا۔
یہی سوال جب ٹی وی میزبان اور کرپٹو کرنسی کے ماہر وقار ذکا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسی کا صرف ایک فائدہ ہوگا اور وہ یہ کہ پرنٹنگ پریس ختم ہوجائیں گے۔ ’یہ ایزی پیسہ اور جاز کیش کا ہی ایک ورژن ہوگا۔‘
انہوں نے کہا: ’ہمارے ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی صرف 100 ملین لوگوں کے پاس ہے۔ اگر سی بی ڈی سی کا اجرا ہو بھی گیا تو اس سے لوگوں کا کیا کام۔‘
اس سوال پر کہ کیا سی بی ڈی سی کے اجرا سے کرپٹو کرنسی پر کوئی فرق پڑے گا؟ وقار ذکا نے جواب دیا: ’کرپٹو کرنسی کا سی بی ڈی سی سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’بٹ کوائن تک ہر کوئی رسائی حاصل کر سکتا ہے جبکہ سی بی ڈی سی پر حکومتی کنٹرول زیادہ ہوگا۔ اچھی اور بری چیزیں دونوں ہوں گی۔‘
وقار ذکا نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تک پے پال جیسے پیمنٹ گیٹ وے تو شروع نہیں کیے جاسکے، پہلے ان کے بارے میں سوچا جائے اور پھر سی بی ڈی سی کی طرف جایا جائے۔
وقار ذکا نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ عدالتی دستاویز شیئر کرتے ہوئے یہ بھی بتایا کہ سٹیٹ بینک کے ورچوئل کرنسیوں پر پابندی کے 2018 کے فیصلے پر انہوں نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور دو سال تک کیس لڑنے کے بعد 2020 میں جاری کیے گئے عدالتی حکم نامے میں درج ہے کہ مرکزی بینک کے جوائنٹ ڈائریکٹر ریحان مسعود نے عدالت عالیہ کو بتایا تھا کہ انہوں نے کرپٹو کرنسی کو کبھی ’غیر قانونی‘ قرار نہیں دیا۔
انہوں نے ملکی معیشت میں بہتری کے لیے تین تجاویز بھی پیش کیں۔
- بائنانس کو 500 ملین امریکی ڈالر جرمانے کا نوٹس بھیجا جائے، جو 2018 سے پاکستان میں غیرقانونی طور پر کام کرکے پیسہ بنا رہی ہے۔
- حکومت ایک اپنا کرپٹو ایکسچینج لانچ کرے۔
- حکومت غیر ملکیوں کو شمالی علاقہ جات میں ہائیڈرو پاور کرپٹو مائننگ مشینیں انسٹال کرنے کے اجازت نامے دے اور لائسنس فیس کی مد میں اس سے پیسہ حاصل کیا جائے۔