پاکستان کی سیاست میں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہو رہا ہوتا ہے۔ ایسا بہت کم ہی ہوتا ہے کہ ملک میں کوئی سیاسی ہلچل نہ ہو رہی ہو۔
کوئی حکومت آ رہی ہے تو کوئی جا رہی ہے۔ ایک لمحے کسی جماعت کا لیڈر اقتدار نشین ہے تو اگلے لمحے وہ جیل کی دیواروں میں سیاسی حکمت عملی ترتیب دے رہا ہوتا ہے۔ غرض ہر لمحہ سیاسی صورت حال تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہوتی ہے۔
اس صورت حال کے باعث ملک میں کبھی کوئی پالیسی یا منصوبہ طویل مدت کے لیے ٹک ہی نہیں سکا۔ کبھی کسی سیاسی جماعت نے عوامی فلاح کو فوقیت دی ہی نہیں۔ ہر ایک کو بس اپنے سیاسی و ذاتی مفاد سے غرض رہی ہے۔
آج کل بھی ملک میں سیاسی منظر نامہ اسی کشمکش میں مبتلا ہے۔ جو پہلے جیل میں تھے وہ اب اقتدار میں واپسی کی اڑان بھر چکے ہیں اور جو اقتدار میں تھے وہ اب اپنے پیشرو کی جگہ جیل میں سیٹل ہو چکے ہیں۔
غرض حالات اور شخصیات وہی ہیں، بس صرف کردار بدل چکے ہیں۔ اب یہ صورت حال کب تبدیل ہوتی ہے؟ اس پر بات کرنا مشکل ہے کیوں کہ پاکستانی سیاست اس قدر غیر یقینی حالات میں مبتلا ہے کہ کب کیا ہو جائے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
کل کے اتحادی آج سیاسی حریف ہیں اور ماضی میں ایک دوسرے کے جانی دشمن آج ایک دوسرے پر جان نچھاور کر رہے ہیں۔ اب یہاں سے چیزیں کیا رخ اختیار کرتی ہیں؟ اس کی پیش گوئی کرنا انتہائی مشکل ہے۔
ملک میں انتخابات کا طبل بج چکا ہے اور تمام جماعتوں نے اپنی اپنی پوزیشن واضح کردی ہے۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ ن کی سیاسی سرگرمیاں سب سے زیادہ ہیں اور اس کی وجہ بھی سب کو معلوم ہے۔
تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی چار سال بعد خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے وطن واپسی اس وقت قومی سیاست میں سب سے زیادہ زیر بحث موضوع ہے۔
اس وقت نواز شریف سعودی عرب کے شہر جدہ میں ہیں، جہاں انہوں نے گذشتہ روز عمرے کی سعادت بھی حاصل کی۔ ان کی جدہ میں شاہی خاندان کے اہم اراکین سے ملاقاتیں بھی متوقع ہیں۔
سعودی عرب سے نواز شریف کا بہت پرانا تعلق ہے۔ سعودی عرب کے شاہی خاندان کے ساتھ نہ صرف ان کا کاروباری تعلق ہے بلکہ ان کا خاندانی تعلق بھی دنیا سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ہر دفعہ جب نواز شریف کو کسی مدد کی ضرورت پڑی تو سعودی عرب سے انہیں ہمیشہ مثبت جواب ملا۔ اب بھی ان کی وطن واپسی سے قبل سعودی عرب میں موجودگی اتفاقیہ نہیں۔
ایسا لگ رہا ہے کہ ان سے متعلق جو باتیں چل رہی ہیں کہ انہیں وطن واپسی سے قبل کچھ چیزوں پر یقین دہانی کی ضرورت ہے اور ممکنہ طور پر وہ اسی موضوع پر جدہ میں اہم ملاقاتیں کریں گے۔
اب ان کی ملاقاتوں سے کیا نتیجہ نکلے گا؟ اس کا فیصلہ وقت کرے گا، لیکن موجودہ پیش رفت یہی ہے کہ نواز شریف کی واپسی فی الحال طے ہے اور ن لیگ کی تیاریاں بھی زور شور سے چل رہی ہیں۔
ان کی وطن واپسی نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ پاکستان کی پوری سیاست کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی واپسی کوئی اتفاقیہ عمل نہیں۔
بات نواز شریف کی واپسی پر صرف گرفتاری پر محدود نہیں کیوں کہ اگر گرفتاری کی بات ہوتی تو وہ چند ماہ قبل اپنے جماعت اور بھائی کی حکومت میں واپس آجاتے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ شہباز شریف کی پوری حکومت کے دوران وہ نہ صرف خاموش رہے بلکہ کسی بڑی سیاسی سرگرمی کا حصہ بھی نہیں بنے اور ان کی بیٹی مریم نواز کی طرف سے بھی معنی خیز خاموشی رہی۔
لیکن اب ایسے اچانک ان کی واپسی کے پلان سے کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ بنتی ہے کہ آیا نوازشریف کو چوتھی بار وزارت عظمیٰ ملنے کا گرین سگنل مل چکا ہے اسی لیے اب وہ واپسی کے لیے رخت سفر باندھ چکے ہیں۔
دوسری بات ان کا واپسی سے قبل 2017 کے کرداروں کے احتساب کی بات کرنا اور جرنیلوں اور ججوں کو ان کے گناہوں کی سزا دینے کا مطالبہ اور پھر اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے شہباز شریف و دیگر کی جانب سے پانی ڈالنے اور انتقام کی بجائے مرہم اور مفاہمت کی پالیسی سے یہ بات واضح ہے کہ نواز شریف کو احتساب کا بیانیہ ترک کرنے کے لیے راضی کیا گیا اور ممکن ہے کہ اس کے بدلے ان سے کوئی بڑا معاہدہ بھی کیا جا چکا ہے۔
اور شاید اسی کی گارنٹی لینے وہ سعودی عرب میں بیٹھے ہیں، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ان کی واپسی پر ملک میں سیاسی منظر نامے میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوں گی۔
لیگی ذرائع کے مطابق ان کی واپسی کے لیے خصوصی طیارہ بک کیا جا چکا ہے۔ خصوصی طیارہ 21 اکتوبر کو دن 12 بجے لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کرے گا۔ ’امید پاکستان‘ نامی چارٹرڈ طیارہ نواز شریف کو لے کر یو اے ای سے روانہ ہو گا۔
لیکن اتنی پیش رفت کے باوجود یہ خدشہ یا تاثر موجود ہے کہ شاید میاں صاحب عین موقعے پر پلٹی کھالیں اور واپسی کا ارادہ منسوخ ہو جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایسی صورت حال ن لیگی قیادت اور کارکنوں کے لیے انتہائی شرم ناک ہو جائے گی کیوں کہ وہ جس طرح سے تیاریاں اور بلند و بانگ دعوے کر رہے ہیں، ایسے میں واپسی کی منسوخی کوئی نیک شگون نہیں ہوگا اور لیگی ووٹر بھی مزید مایوسی سے دوچار ہوگا، جس کی وجہ یہ ہے کہ ن لیگ بڑے میاں صاحب کی واپسی پر پہلے سے ہی آپس کے اختلافات کا شکار ہے۔ ایسی صورت حال مسلم لیگ ن کی عوامی مقبولیت کو مزید نقصان پہنچائے گی۔
نواز شریف جب جیل سے بیرون ملک گئے تھے تو اس وقت حکمرانی کے تخت پر عمران خان براجمان تھے اور وہ اپنے تمام سیاسی حریفوں کو جیل میں ڈالنے کے لیے نئی نئی سکیمیں تلاش کررہے تھے لیکن وقت کی ستم ظریفی ہے کہ اب وہی نواز شریف جب وطن واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہیں تو انہیں جیل میں رکھنے کے لیے بے تا ب عمران خان خود جیل میں بند اپنی کھوئی ہوئی روح تلاش کر رہے ہیں۔
حال ہی میں انہوں نے جیل سے اپنے کارکنوں کے نام ایک لمبا چوڑا پیغام بھی بھیجا، جس میں دبے لفظوں میں کسی ممکنہ ڈیل اور باہر جانے کی پیشکش کو رد کرنے کی بات کر رہے ہیں۔
اب انہیں ڈیل کی پیشکش کس نے اور کیوں کی اس بات کو تو وہ خود ہی بہتر بتاسکتے ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ فی الحال حالات ان کے حق میں بالکل نہیں اور ان کی قانونی مشکلات میں بھی روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
اس صورت حال میں ان کا جیل سے نکلنا نہایت مشکل لگ رہا ہے۔ ان ساری باتوں سے ایک بات واضح ہے کہ ملک میں سیاسی قوتیں جب تک ایک پیج پر نہیں آتیں تب تک سیاسی استحکام کے دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آتے کیوں کہ پاکستان میں غیر جمہوری قوتوں سے زیادہ سیاسی جماعتوں نے جمہوریت اور نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہی سیاسی شخصیات جو اقتدار نہ ہونے پر جموریت اور آئین کی بالا دستی کی بات کرتی ہیں، اقتدار ملنے پر صرف اور صرف اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کی خاطر انہی غیر جمہوری قوتوں کے آلہ کار بن جاتی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کب یہ سب چیزیں ان کی سمجھ میں آئیں گی کیوں کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا اور ہر چیز اپنی دستوری حد میں نہیں رہتی، تب تک اس ملک میں کسی طرح سے بھی استحکام نہیں آئے گا اور اس کا نقصان ہمیشہ کی طرح عام آدمی کو بھرنا پڑتا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔