’عشق مرشد‘: سیاست کے کانٹوں میں محبت کی داستان

عشق مرشد کی موسیقی اور بیک گراؤنڈ میوزک اتنا دلکش ہے کہ پہلی ہی قسط سے لگتا ہے کہ کوئی بڑا ڈراما سکرین ہونے والا ہے۔

بڑی سکرین کے مناظر اور کلاسیکل محبت کا آہنگ لیے یہ کہانی فلموں کی طرح بارشوں، باغوں و قبرستان سے شروع ہوئی ہے (تصویر: بشکریہ ہم ٹی وی)

’زبیدہ سکندر کا بیٹا ہوں، سیاست سیکھ کر نہیں، لے کر پیدا ہوا ہوں۔‘

مکالمہ ڈرامے کے تیور بتا رہا ہے، مگر سیاست کے کانٹوں میں ایک لڑکے اور لڑکی کی محبت پھول برسا رہی ہے۔

عشق مرشد کی موسیقی اور بیک گراؤنڈ میوزک اتنا دلکش ہے کہ پہلی ہی قسط سے لگتا ہے کہ کوئی بڑا ڈراما سکرین ہونے والا ہے۔

بڑی سکرین کے مناظر اور کلاسیکل محبت کا آہنگ لیے یہ کہانی فلموں کی طرح بارشوں، باغوں و قبرستان سے شروع ہوئی ہے۔

سیاست دان، بیوروکریٹس، عام آدمی، سی ایس ایس کرنے کے متمنی طالب علم، رشتے داریاں، امارت، غربت، دوستیاں یہ سب مل کر ڈراما ’عشق مرشد‘ بنتا ہے، جس میں معاشرے کا تقریباً ہر طبقہ دکھائی دے رہا ہےاور اکائی بن رہا ہے۔

 ہیرو شاہ میر یورپ سےاپنے ایک دوست کی شادی کے لیے آتا ہے اور ایک لڑکی کو اس کی اصول پرستی پہ دل دے بیٹھتا ہے۔

حسن اتفاق یہ ہوتا ہے کہ جس دوست فراز کی شادی پہ وہ آتا ہے، اس کی بیوی ملیحہ اور ہیروئین شبرا سہیلیاں ہیں۔ یہ ایک محبت کی شادی ہے جس میں ایک عشق پروان چڑھنے جا رہا ہے۔

دل تو آخر دل ہے والی بات ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ جناب جس حسینہ کو دل دے بیٹھے ہیں، اس کو تو یہ ٹھاٹ باٹ پسند ہی نہیں۔ اسے ایک عام سا لڑکا پسند ہے جس کی زندگی میں کچھ اصول ہوں، ایمان داری ہواور اس کی زندگی اس کی اپنی ہو۔

اب جب لڑکی پسند آ جائے تو متاثر کرنے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے، لہذا شاہ میر پہلے تو ملیحہ کے توسط سے حال دل پہنچانے کی کوشش کرتا ہے مگر ناکامی کے بعد، اپنا حال و حلیہ بدل کر شبرا تک پہنچ گیا ہے۔

فکر معاش و ذمہ داری تو ہے نہیں، لہذا عشق مرشد بن سکتا ہے۔ یوں کہانی آگے بڑھ رہی ہے۔

یہاں تک تو تھی عشق مشق کی بات۔ دوسری کہانی شبرا کے افسر ابا کے اثاثوں اور ان پہ لگے خرد برد کے بہتان کی ہے۔ ایک طرف سیاست ہے، ایک طرف کرسی ہے۔

شبرا کی ایک بہن سکھی ہے، جس کا نکاح پھپھو کے گھر ہوا ہے۔ پھپھو کو لالچ ہے کہ افسر بھائی کوئی 17 گریڈ کی نوکری پہ بھتیجے کو بھی لگوا دے گا۔

مگر بھائی کے اصول ہیں جس کی وجہ سے بہن کو ذہنی مشکلات کا سامنا ہے اور وہ ایک غیر روایتی افسر سے روایتی عیاری کو اپنے بیٹے کے لیے تو مناسب سمجھتی ہے مگر اثاثوں کے حوالے سے ٹی وی پہ چلنے والی خبر پہ اسے اعتراض ہے۔

شبرا سی ایس ایس کر رہی ہے۔ ایک افسر بننے کے خواب سجائے بیٹی باپ کی بھی لاڈلی ہے لیکن جن ڈراموں میں بیٹیاں کسی افسری رتبے پہ دکھائی جاتی ہیں وہاں اکثر بھائی کا کردار موجود نہیں ہوتا۔

یہاں بھی شبرا اور سکھی کا کوئی بھائی نہیں ہے۔

یہ ڈراما دنیا داری کی ایک تصویر ہے جس میں شاہ میر اور شبرا کی محبت سے اتار چڑھاؤ تو آئیں گے، مگر اس اتار چڑھاؤ میں ایک کہانی شاہ میر کے سیاست دان باپ کی بھی ہے۔

شاہ میر کی ماں زبیدہ سکندر کے انتقال کے بعد اس کے باپ نے اس خاتون سے دوسری شادی کر لی، جسے زبیدہ سکندر کی دیکھ بھال کے لیے رکھا گیا تھا مگر ایک کہانی اس سے پہلے شاہ میر اور اس کی ماں کی آنکھ دیکھ چکی ہے۔

اس کے باوجود ڈراما مسلسل کیف غم کا شکار نہیں ہوا۔ اس میں زندگی کا خوشی و غم، شوخی و روکھا پن سب شامل ہے۔

کہانی اور بیرونی مناظر کی عکس بندی میں فلمی پن ہے، جو ہمارے یہاں بڑی سکرین سے بھی ناپید ہو گیا ہے، اس لیے یہ ناظرین کی اس کمی کو بھی پورا کرے گا۔ اس کے ساتھ اچھی موسیقی ہو تو ہر کمی پوری ہو جاتی ہے۔

صابر ظفر کی شاعری ہے اور ساحر آواز احمد جہانزیب کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلال عباس خان ہیرو کے کردار میں دکھائی دے رہے ہیں۔ ان کا ہیر سٹائل ویسے ہی مقبول ہو رہا ہے جیسے ایک فلمی ہیرو کا ہوتا ہے۔ انہوں نے مروجہ ہیرو والے روپ کو بدل کر اسے کلاسیکل رنگ دیا ہے۔

درفشاں نے البتہ روایتی ہیروئین والا حلیہ ہی رکھا ہے۔ وہی سیدھے سے استری شدہ بال، وہی فیشن میں چلتا لباس جو کم از کم اس کردار سے میل نہیں کھا رہا۔

ایک بہت ذہین، فطین، حسین لڑکی دنیاوی رنگ میں نہیں رنگی ہوتی، اس کا اپنا الگ سٹائل ہوتا ہے لیکن چونکہ لکھا گیا کردار مضبوط ہے، لہذا وہ اس کمی کو پورا کر دے گا۔

فراز اور ملیحہ جیسی دوستی بھی اب نایاب ہوتی جا رہی ہے، اس لیے یہ کردار بھی آئیڈل کردار بنیں گے۔

ان کی شادی کی پہلی رات کا دوستانہ سا منظر زندگی کو جذباتیت سے نکال کر نارمل طرح سے قبول کرنے کی طرف ایک مثبت سین رہا۔

سکھی اور زوہیب سماج کی بے بس اکثریت کی کہانی ہیں، جس کو عمدہ پیش کیا گیا ہے۔ مکالمہ سادہ ہے اس لیے اس کی رسائی اور شنوائی زیادہ ہے۔

ڈرامے کے مصنف عبدالخالق ہیں۔ ہدایات فاروق رند کی ہیں۔ مومل پروڈکشن کے سر پہ پیشکش کا سہرا ہے اورڈراما اتوار کی رات ہم ٹی وی سے نشر ہو رہا ہے۔

دیکھتے ہیں عشق ’مرشد‘ بنتا ہے، یا ’مرید‘ ہو جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ