نئی تحقیق کے مطابق کبھی کبھار کلاک پر الارم کو خاموش کرنے کا بٹن دبانے سے دماغ کو گہری نیند سے بیدار ہونے کے عمل میں مدد مل سکتی ہے۔
بعض اوقات لوگ گھڑیوں اور سیل فون میں سنوز بٹن کا استعمال کرتے ہوئے صبح الارم بجنے کے بعد بھی دوبارہ سونا چاہتے ہیں۔
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں کئی دہائیوں کی تحقیق کے بعد بتایا گیا کہ سنوز کا بٹن دبانے سے نیند اور دماغ کی جاگنے کی صلاحیت دونوں پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں لیکن اب تک اس کا کوئی براہ راست ثبوت سامنے نہیں آیا۔
جریدے جرنل آف سلیپ ریسرچ میں شائع ہونے والی اس نئی تحقیق میں اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ الارم بند کرنا کتنا عام ہے اور اس رویے کے نیند، غنودگی، موڈ اور دماغ کی سوچنے کی صلاحیتوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
محققین کو پتہ چلا ہے کہ وہ لوگ جو صبح کے وقت الارم سنوز کا بٹن دباتے ہیں، ان کی نیند قدرے کم ہوتی ہے اور وہ جاگنے پر ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ غنودگی محسوس کرتے ہیں جو بجتے ہوئے الارم کو کبھی بند نہیں کرتے۔
لیکن محققین نے یہ بھی دیکھا کہ رات بھر تناؤ کا سبب بننے والے ہارمون کورٹیسول کے اخراج، موڈ یا نیند کے معیار پر الارم بند کرنے کے کوئی منفی اثرات نہیں تھے۔
مطالعے میں 1732 افراد نے اپنی صبح کی عادات کے بارے میں سوالات کے جوابات دیے۔ ان سوالات میں یہ بھی شامل تھا کہ انہوں نے کتنی بار سنوز بٹن دبایا؟ خاص طور پر نوجوان بالغوں نے بتایا کہ وہ الارم بند کروانے کی یہ سہولت باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں۔
سروے میں شریک افراد کے مطابق الارم بند کرنے کی سب سے عام وجہ اس کے بجنے پر بستر سے نکلتے وقت بہت زیادہ تھکاوٹ محسوس کرنا ہے۔
ایک اور چھوٹے ذیلی تجربے میں الارم باقاعدگی سے بند کرنے والے 31 افراد نے نیند کی لیبارٹری میں دو راتیں گزاریں تاکہ ان کی نیند کا زیادہ تفصیلی جائزہ لیا جا سکے۔
ایک صبح انہیں 30 منٹ تک الارم بند رکھنے اجازت دی گئی اور دوسری صبح انہیں الارم بجنے پر فوراً اٹھنا پڑا۔
اگرچہ پہلے صورت میں سروے میں شامل افراد کی نیند میں الارم آدھے گھنٹے تک بند رکھنے کے دوران خلل پڑا تاہم ان میں سے زیادہ تر پھر بھی 20 منٹ سے زیادہ دیر تک سو پائے جس کا مطلب ہے کہ ان کی رات کی تمام نیند زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔
الارم بند کرنے کی صورت میں کسی کو گہری نیند سے اچانک نہیں جاگنا پڑا اور الارم بند کرنے والوں نے جاگنے کے فوری بعد تھوڑی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
موڈ، نیند، یا تھوک میں کورٹیسول کی مقدار پر بھی الارم بند کرنے کے کوئی واضح اثرات نہیں تھے۔
نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آدھے گھنٹے کے لیے الارم بند کروانے سے رات کی نیند پر منفی اثرات مرتب نہ ہوں اور اس کے کچھ مثبت اثرات ہوں جیسے گہری نیند سے جاگنے کے امکان میں کمی۔
تاہم محققین نے متنبہ کیا کہ دوسرا تجربہ چھوٹا تھا اور اس میں صرف ان لوگوں کو شامل کیا گیا تھا جو باقاعدگی سے الارم بند کرتے ہیں اور وہ ہر بار الارم بجنے کے بعد آرام سے دوباہ سو جاتے ہیں۔ محققین کے مطابق بہت زیادہ ممکن ہے کہ الارم بند کرنا ہر کسی کے لیے نہیں ہے۔
امریکہ کی یونیورسٹی آف کنیکٹیکٹ سے تعلق رکھنے والی جینیفر کنعان جن کا اس تحقیق سے تعلق نہیں اور ان کی مہارت نیند پر کام کرنے کے حوالے سے ہے، کا کہنا ہے کہ تازہ ترین نتائج کو احتیاط کے ساتھ بیان کرنا چاہیے کیوں کہ اس سے لوگوں کو غلط پیغام جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر کنعان کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’اگر آپ پہلی بار الارم بجنے کے بعد 30 منٹ تک سوتے جاگتے رہتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ایسا 30 منٹ کی مسلسل، معیاری اور تازہ دم کر دینے والی نیند کی قیمت پر کر رہے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ بجائے یہ کہ الارم والی گھڑیوں کو مرضی کے مطابق استعمال کرنے کا طریقہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے، لوگوں کو رات کی اچھی نیند کو زیادہ ترجیح دینی چاہیے اور سنوز بٹن پر کم انحصار کرنا چاہیے۔
ڈاکٹر کنعان کے بقول: ’سادہ لفظوں میں کہا جائے تو سنوز کا بٹن دبانے کی بجائے انہیں زیادہ نیند لینی چاہیے۔‘
© The Independent