پاکستانی کرکٹ ٹیم نے ہالینڈ اور سری لنکا کے خلاف اپنے پہلے دو میچ جیتے تو دل میں ایک اطمینان سا تھا کہ یہ ٹیم اس عالمی کپ میں کچھ کر دکھانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:
یہ اطمینان خاص طور پر سری لنکا کے خلاف اس کی شاندار کارکردگی دیکھ کر بھی ہوا تھا جس میں اس نے ورلڈ کپ کی تاریخ کا سب سے بڑا ہدف عبور کرکے جیت اپنے نام کی تھی لیکن پھر ہوا یہ کہ ان دو اگلے قدموں کے بعد ٹیم دو قدم پیچھے چلی گئی۔
انڈیا کے خلاف شکست کو اگر اس نظر سے دیکھا جائے کہ پاکستان نے ورلڈ کپ میں کبھی بھی انڈیا کو شکست نہیں دی ہے لہذا یہ شکست انہی ناکامیوں کے سلسلے کا تسلسل تھی تو دل کو بہلانے کے لیے یہ خیال اچھا تھا لیکن آسٹریلیا کے خلاف پاکستانی ٹیم جس طرح ہاری ہے اس کے بعد اس سے توقعات کم ہوگئی ہیں اور خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
پاکستان اور آسٹریلیا کا میچ دراصل ڈیوڈ وارنر اور مچل مارش کا شو تھا جس میں انہوں نے چناسوامی سٹیڈیم کی چھوٹی باؤنڈری کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور بیٹنگ کے خوب مزے لوٹے۔ ڈیوڈ وارنر جیسے بیٹسمین کے لیے ایک لائف لائن ہی کافی ہوتی ہے۔ دس کے سکور پر اگر اسامہ میر ان کا کیچ لے لیتے تو دنیا کو وارنر کی 163 رنز کی اننگز دیکھنے کو نہ ملتی۔
اسامہ میر کے لیے یہ میچ کسی طور بھی یاد رکھے جانے والا نہیں ہے جس میں ان سے یہ کیچ ڈراپ ہوا پھر وہ مہنگے بولر بھی ثابت ہوئے اور جب بیٹنگ آئی تو صفر کی خفت بھی اٹھانی پڑ گئی لیکن پاکستان کی شکست کی تمام تر ذمہ داری صرف اور صرف انہی کے کھاتے میں لکھی نہیں جا سکتی جیسا کہ میں نے سوشل میڈیا کے چند جغادریوں کی ان کے بارے میں یہ پوسٹ پڑھی ہیں۔
اسامہ میر تجربہ کار شاداب خان کے مسلسل ناکام ہونے کے سبب ٹیم میں شامل کیے گئے تھے اور اس ورلڈ کپ میں وہ پہلا میچ کھیلے تھے۔
چناسوامی سٹیڈیم کی باؤنڈری دونوں ٹیموں کے بیٹسمینوں کے لیے برابر تھی لیکن دونوں ٹیموں کی بیٹنگ میں واضح فرق نظر آیا۔ پاکستانی بیٹنگ کا انداز روایتی سا رہا۔
امام الحق اور عبداللہ شفیق نے سنچری پارٹنر شپ کے ذریعے 368 رنز کے ہدف تک پہنچنے کی امیدوں کو زندہ رکھا تھا لیکن اس شراکت کے ٹوٹنے کے بعد جس طرح مڈل آرڈر بیٹنگ ناکام ہوا وہ یقیناً ایک تکلیف دہ صورت حال تھی۔
عبداللہ شفیق اور سعود شکیل کی شاٹس سلیکشن ایک جانب مایوس کن تھی تو دوسری جانب کپتان بابراعظم اسی انداز سے سپن بولنگ پر آؤٹ ہوئے جس طرح وہ ہالینڈ کے خلاف آؤٹ ہوئے تھے۔
بابراعظم کی خراب فارم یقیناً پاکستانی ٹیم کے لیے سب سے زیادہ تشویش کا سبب بنی ہوئی ہے۔ ایشیا کپ میں نیپال کی کمزور ٹیم کے خلاف ڈیڑھ سو کی بڑی اننگز کھیلنے کے بعد سے وہ سات اننگز میں صرف ایک نصف سنچری بنانے میں کامیاب ہوسکے ہیں جو انڈیا کے خلاف تھی لیکن ان کی بیٹنگ میں وہ شاہانہ انداز نظر نہیں آرہا ہے جس کے لیے وہ شہرت رکھتے ہیں۔
بابراعظم جس کلاس کے بیٹسمین ہیں ان سے یہی امید کی جا سکتی ہے کہ فارم میں ان کی واپسی جلد سے جلد ہو جائے ورنہ یہ نہ صرف ان کے لیے بلکہ ٹیم کے لیے بھی بہت نقصان دہ ہو گا، جیسا کہ ہم 2003 کے عالمی کپ میں انضمام الحق کی ناکامی کی صورت میں دیکھ چکے تھے۔
آسٹریلیا کے خلاف میچ میں اگر کوئی مثبت اور خوش آئند بات نظر آئی تو وہ ہے شاہین شاہ آفریدی کی بولنگ۔ جس طرح انہوں نے ڈیتھ اوورز میں کمال کی بولنگ کی اس نے یقینی طور پر ان کے اپنے اعتماد میں بھی بے پناہ اضافہ کیا ہے۔
شاہین شاہ آفریدی کی وجہ شہرت پہلے ہی اوور میں وکٹ لینے کی رہی ہے لیکن ان دنوں ہم ان کے پہلے اوور میں وکٹ کے بجائے چھکا لگتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کے بعد آسٹریلیا کے خلاف میچ میں بھی یہی ہوا۔ اگرچہ ان کے تیسرے اوور میں اسامہ میر نے ڈیوڈ وارنر کا انتہائی آسان کیچ گرا دیا اور پھر شاہین نے مارش کو میڈن اوور بھی کیا لیکن ان کی بولنگ آخری اوورز میں اپنے عروج پر نظر آئی۔
حارث رؤف نے اگرچہ ڈیتھ اوورز میں اچھی بولنگ کی لیکن ابتدائی اوورز میں وہ بھی رنز روکنے میں ناکام رہے ہیں اسی طرح حسن علی سے بھی رنز نہیں رک رہے ہیں۔
ورلڈ کپ شروع ہونے سے قبل پاکستانی پیس اٹیک کے بارے میں دنیا جس طرح باتیں کر رہی تھی اب سب کچھ بدل گیا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایک نسیم شاہ کے نہ ہونے سے اتنا فرق پڑسکتا ہے؟
فِخرزمان کا آؤٹ آف فارم ہونا، مڈل اوورز میں سپنرز کا وکٹیں نہ لینا، یہ ورلڈ کپ سے پہلے کے بڑے مسائل تھے جو اب بھی موجود ہیں۔ فخر زمان کی جگہ عبداللہ شفیق آ گئے ہیں لیکن شاداب خان اور محمد نواز کی کارکردگی نے اس سوال کی اہمیت بڑھا دی ہے کہ ٹیم میں سپیشلسٹ سپنر کیوں نہیں؟
دیگر ٹیمیں سپیشلسٹ سپنرز کے ساتھ انڈیا گئی ہوئی ہیں اور ہم نے آدھا تیتر آدھا بٹیر کی طرح محمد نواز اور شاداب خان سے کام چلانے کا سوچ رکھا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آسٹریلیا کے خلاف اسامہ میر کی ایک میچ کی خراب کارکردگی کے بعد کیا انہیں بٹھا کر دوبارہ شاداب خان کو واپس لایا جائے گا؟ یا پھر نواز کی جگہ شاداب خان کی واپسی ممکن بنائی جائے گی؟
محمد نواز بھی خوش قسمت ہیں کہ متواتر غیر متاثر کن کارکردگی کے باوجود انہیں مواقع مل رہے ہیں۔ اس سال نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی کے ون ڈے میں چار وکٹیں لینے کے بعد سے اب تک 12 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں میں وہ صرف چھ وکٹیں لینے میں کامیاب رہے ہیں اور ان بارہ میں سے سات میچوں میں وہ ایک بھی وکٹ لینے سے محروم رہے ہیں۔
پاکستان کا اگلا میچ پیر کے روز افغانستان کے خلاف چنئی میں ہے۔
چنئی میں یہ اس ورلڈ کپ کا چوتھا میچ ہو گا، اس سے قبل انڈیا نے آسٹریلیا کو چھ وکٹوں سے ہرایا تھا جس میں روی چندرن اشون، رویندرا جدیجا اور کلدیپ یادو نے گرنے والی دس میں سے چھ وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اس کے بعد چنئی میں نیوزی لینڈ کی ٹیم بنگلہ دیش اور افغانستان کو ہرا چکی ہے جس میں راشد خان اور مجیب الرحمن کو ایک ایک وکٹ ہی مل سکی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان اور افغانستان کے ون ڈے میچوں میں سکور سات صفر پاکستان کے حق میں رہا ہے لیکن ون ڈے ہوں یا ٹی ٹوئنٹی میچز، یہ مقابلے سخت رہے ہیں، 2019 کے عالمی کپ کا میچ سب کو اچھی طرح یاد ہے۔
اس ورلڈ کپ میں لیگ سپنر راشد خان چار میچوں میں چھ وکٹیں لے چکے ہیں جبکہ آف سپنر مجیب الرحمن چار میچوں میں چار وکٹیں لینے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔
پاکستان کے خلاف پانچ ون ڈے میچوں میں راشد کی سات وکٹیں ہیں جبکہ مجیب الرحمن پانچ میچوں میں نو وکٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے چنئی کی سپن وکٹ اور افغانستان کی سپن بولنگ کو دیکھتے ہوئے آئی سی سی سے درخواست کی تھی کہ افغانستان کے خلاف اس کے میچ کو چنئی سے بنگلور منتقل کر دیا جائے، اسی طرح آسٹریلیا کے خلاف بنگلور کا میچ چنئی منتقل کیا جائے لیکن آئی سی سی نے یہ درخواست رد کردی تھی۔
پاکستان کے لیے چنئی کا گراؤنڈ خوش بختی کی علامت رہا ہے جہاں اس نے کھیلے گئے دونوں ون ڈے انٹرنیشنل جیتے ہیں۔
اسی گراؤنڈ میں سعید انور نے 194 رنز کی یادگار اننگز کھیلی تھی لیکن اب اسے افغانستان کی شکل میں ایک سخت جان حریف کا سامنا ہے جس نے انگلینڈ کو اپ سیٹ شکست دے رکھی ہے۔
افغانستان کے خلاف میچ کے بعد پاکستانی ٹیم کو جنوبی افریقہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ جیسی بڑی اور سخت ٹیموں سے کھیلنا ہے یعنی اب اس کے پاس غلطی کی گنجائش نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اگر اسے سیمی فائنل کی چار ٹیموں میں شامل ہونا ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔