یہ تب کی کہانی ہے جب میں سعودی عرب میں تھا اور بھوکا ننگا تھا۔
ان دنوں موسم گرمی کا تھا اور مکہ کا گرد و نواح صوفی تبسم کا تندرو ہو گیا تھا۔ آوارگی میں معیشت کے اسباب تلاش کر رہا تھا۔
میرے پاس پیسے بالکل نہیں تھے، فقط دس ریال تھے جو بس والے کو دے چکا تھا۔ بس کا کرایہ مکہ سے مدینہ کا 45 ریال تھے مگر مَیں نے دس ہی دیے، کہ یہی میری تمام ملکیت تھی، صاحبِ بس نے وہی قبول کر لیے جس کا سبب یہ ہے کہ وہاں بسیں اِکا دُکا ہی چلتی ہیں اور سواری خوردبین سے بھی نہیں ملتی۔
اگر آپ نے مکہ سے مدینہ جانا ہے یا مدینہ سے مکہ آنا ہے تو بس پر بیٹھ جائیے۔ یہ بس صبح چلے گی، مدینے کی گلی گلی سواریاں ڈھونڈتی پھرے گی اور کہیں شام تک جا کر بھرے گی، تب مکہ کی راہ لے گی۔ وہاں عربوں میں سے ہر ایک کے پاس اپنی سواری ہے۔ بسوں پر بدیسی لوگ ہی بیٹھتے ہیں۔ حج کے دنوں میں سواریاں عام مل جاتی ہیں۔ اگر حج کے علاوہ گئے ہیں تو یہی کچھ آپ کا نصیب ہے۔
اب میری سُنیے، پیسے بہت کم تھے۔ مکہ سے مدینہ کی طرف جانا تھا۔ بس ڈرائیور سے التجا کی، کنڈیکٹر سے سماجت برتی اور کوئی گھنٹہ بھر کی گداگرانہ گفتگو کے بعد طے یہ ہوا کہ جو دس ریال ہیں، وہ دے دو، مدینہ لے چلیں گے۔ اگر مدینہ میں کوئی مددگار ملے تو اُس سے بقیہ وصول کر کے دے دیجیو۔
اگرچہ ایک دن کا بھوکا تھا اور یہی پیسے بچا کر رکھے تھے کہ جب فوتگی کے قریب ہوں گا تو اِن سے جرعہ جرعہ دو ایک دن نکال لوں گا مگر اب کسی آس میں مکہ سے مدینہ جانا پڑا تو اِن پیسوں کو ٹھکانے لگانے کے سوا چارہ نہ تھا۔
خیر بس پر بیٹھ گیا۔ وہ سارا دن مکے کی گلیوں کا طواف کراتے اور سواریوں کو خورد بین سے تلاش کرتے جب عصر کے قریب نکلی تو سب لوگوں نے خدا کے گھر سے نکلنے پر شکر کیا۔
مکہ سے مدینہ کا فاصلہ 550 کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ جب دو سو کلو میٹر طے ہو چکا تو سواریاں بھوک کے مارے بلبلا اُٹھیں کہ سارا دن سفر میں گزرا تھا۔ بھوک تو مجھے بھی بے پناہ لگی تھی مگر میری جیب میں سوائے صبر کے کچھ نہیں تھا۔
آخر ایک ہوٹل پر بس رُک گئی۔ تمام سواریاں اُتر کر ہوٹل شریف میں داخل ہو گئیں۔ میری حالت یہ تھی کہ کھانوں کی خوشبوئیں باؤلا کیے دے رہیں تھیں مگر کر کچھ نہیں سکتا تھا۔ جب سب لوگ کھانا کھانے بیٹھ گئے تواُن کی صورت نے بھوک کی اشتہا بڑھا دی اور جی سے بے بس ہو گیا۔
اللہ جانے اِس میں کیا حکمت ہے مکہ میں آ کر لوگ بہت بے مروت ہو جاتے ہیں۔ سب یہی خیال کرتے ہیں مسافر اللہ کے گھر کا مہمان ہے، وہی دے گا۔ مگر اللہ تو بے نیاز ہے اُسے کھانے پینے جیسی علتوں سے علاقہ نہیں۔
چنانچہ مہمان کے پاس پیسے نہیں تو اللہ معافی دے بندہ سدا کے لیے اللہ کا مہمان ہو سکتا ہے یعنی خاکِ مکہ میں دوام سو سکتا ہے۔
ہم نے ہمیشہ کے لیے اللہ کا مہمان ہونے سے بچنے کے واسطے اپنی عقل سے کام لیا۔ بغیر سوچے سمجھے ایک میز پر براجمان ہو گئے۔ وہاں ایک بڑا مسئلہ ہوٹلوں کا یہ ہے کہ چیزوں کے نرخ مقرر ہیں، نہ چیز کم دیتے ہیں نہ پیسہ کم لیتے ہیں۔
ایک آدمی کو کھانے کو جو کچھ دیتے ہیں وہ پانچ بندے بھی کھا لیتے ہیں۔ اب ایک آدمی کہاں تک پانچ بندوں کا کھانا کھائے آخر چھوڑنا پڑتا ہے اور وہ سارا کھانا اُٹھا کر کچرے دان کی راہ کر دیتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
میرے میز پر بیٹھتے ہی ایک بیرا مینو رکھ گیا۔ دیکھا تو دس ریال سے نیچے کی کوئی شے وہاں نہیں تھی اور دس ریال میں ایک مرغِ مسلم، ایک تھال چاؤلوں کا، کچھ سلاد، رائتہ اور ایک ٹِن پیک پیپسی۔
اب مسئلہ میرے لیے یہ نہیں تھا کہ یہ چیزیں مہنگی ہیں یا سستی، اِس طرح کا حساب تو اُس وقت کیا جاتا ہے جب بندے میں خریدنے کی کچھ نہ کچھ استطاعت موجود ہو اور جناب کے پاس مکمل فراغت تھی، پھر بھی نہ جانے کیا جی میں آئی کہ مَیں نے دس ریال کے مینیو کا آرڈر دے دیا۔
لیجیے سامان آگیا جسے تسلی سے بیٹھ کر کھا لیا، بقیہ جو بچا (آپ سمجھیے کہ چار بندوں کا بچ ہی گیا تھا)، اُسے پیک کرنے کاآرڈر دے دیا۔ اگرچہ یہ بات وہاں معیوب خیال کی جاتی ہے مگر میری اِس میں حکمت تھی، جس کی خبر آپ کو ابھی ہو جائے گی۔ جب بچا ہوا کھانا پیک ہو کر میز پر آ گیا تو مَیں وہاں سے واش روم کے بہانے اُٹھ کر باہر آگیا۔ سعودی عرب میں واش روم کھانے کے ہوٹلوں سے باہر کچھ فاصلے پر بنائے جاتے ہیں۔
باہر نکل کر مَیں نے تیز قدموں سے اُس کھجوروں کے باغ کی طرف راہ لی جو بالکل خشک تھا اور دھوپ سے جل سڑ کر تباہ ہو چکا تھا۔ یہ باغ ایک گھاٹی میں تھا اور ہوٹل سے کوئی سو فٹ نیچے تھا۔ مَیں تیزی سے اِس کی طرف اُترتا چلا گیا۔ ایسے لگتا تھا جہاز لینڈ کر رہا ہو۔
کجھوروں کے درخت ایسے خشک، اُکھڑے اور گرے پڑے تھے جیسے اُن پر ہزاروں سال گزر چکے ہیں یعنی یہ باغ مکمل ویران تھا اور سڑک کے ساتھ ساتھ جاتا تھا اور چار پانچ کلو میٹر تک پھیلا ہوا تھا۔
مَیں سڑک سے تھوڑا فاصلے پر رہتے ہوئے قریب قریب اَس ویران باغ میں بھاگ رہا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ بیرے کو یقینِ واثق ہو گا کہ میں واش روم میں گیا ہوں اور جلد واپس آ کر اُسے ادائیگی کرتا ہوں ورنہ کھانا پیک کروا کر میز پر کیوں رکھتا؟
اِدھر میں اِس کھنڈر باغ میں بھاگے چلے جا رہا تھا۔ کھانا کھانے کے باعث مجھ میں توانائی در آئی تھی اور جوان مَیں ویسے بھی تھا۔ لہٰذا ایک گھنٹے کے اندر اندر آٹھ دس کلو میٹر کر گیا۔ مجھے ڈر تھا اب تک ہوٹل مالکان کو میرے فرار کا پتہ چل گیا ہو گا اور وہ پولیس کو لیے روڈ پر چکر لگا رہے ہوں گے۔ اِس لیے مَیں نے اِس ویران اور ٹنڈ منڈ کھجوروں کو نہ چھوڑا۔ روڈ اور باغ کے درمیان اونچے ٹیلوں کی دیوار تھی۔
شام پڑ گئی، سورج ڈوبنے لگا۔ اُس کی سُرخی اِس ویرانے اور سُرخ پہاڑوں کو اتنا سُرخ کرنے لگی کہ جی وہیں مست ہو گیا۔ اِدھر میں نے چلنا نہ چھوڑا۔ آپ جانیے میرے پچھلی طرف مکہ تھا، سامنے مدینہ کی منزلیں تھیں او ر ان دونوں کے بیچ مَیں اِن وادیوں میں تنہا تھا۔ نہ میری مدد کو یہاں مہاجرین تھے، نہ انصار۔
دو ڈھائی گھنٹے کی مسافت کے بعد بالآخر دوبارہ روڈ پر چڑھ کر کھڑا ہو گیا۔ اِکا دُکا کاریں گزر رہی تھیں، دور کہیں کہیں ایک آدھ اونٹ بھی پہاڑی ریگستان میں جاتا نظر آ رہا تھا۔ شام ہو چکی تھی اور منظر اتنا خوبصورت تھا کہ اُس میں ڈوبنے کو جی چاہتا تھا۔ اُس وقت سمجھ میں آیا کہ عرب لوگ ریگزاروں سے باہر نکلنا کیوں پسند نہیں کرتے۔
کچھ دیر روڈ پر کھڑا رہنے کے بعد میں پھر چل پڑا یہ مصرع گنگناتے ہوئے ’مَیں مدینے چلا۔‘ کوئی آدھ گھنٹے کی مزید مسافت کے بعد جب اندھیرا بڑھ گیا اور ریت ٹھنڈی ہونے لگی تو مجھے احساس ہوا مَیں واقعی اکیلا ہوں اور مسافر ہوں، تنگدست و مفلس ہوں۔
اتنے میں ایک بس آتی دکھائی دی۔ مَیں نے اُسے ہاتھ سے رُکنے کا اشارہ دیا۔ چند لمحوں میں قریب آ کر رُک گئی۔ یہ ایرانی مسافروں کی کوسٹر تھی ۔ اللہ اِن کا بھلا کرے، اُنھوں نے مجھے سوار کیا اور مدینے کی طرف نکلے۔ ایک آدمی نے بتایا اگر آپ اکیلے دو گھنٹے اور گزار لیتےتو بھیڑیوں کی توضع اچھی ہو جاتی۔ اُس کی یہ بات سُن کر میرے رونگٹے کیل بن گئے اور چہرے پر پسینہ آ گیا۔
اب اندھیرا ہو چکا تھا۔ بس میں بیٹھتے ہی مجھے نیند آ گئی۔