ایک ہفتہ قبل ای کامرس اور ٹیکنالوجی کی ملٹی نیشنل کمپنی ایمازون نے انکشاف کیا تھا کہ وہ چلنے والے روبوٹس اور اس کے بعد نئے ڈرون متعارف کروانے جا رہی ہے جو لوگوں کو ان کے گھر پر سامان پہنچایا کریں گے۔ اس اعلان کے بعد کمپنی نے یقین دہانی کروانی شروع کر دی ہے۔
کمپنی کے روبوٹکس ڈویژن کے سربراہ ٹائی بریڈی کا اصرار ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت کے ان تمام اقدامات (عملی طور پر روبوٹ کے معاملے میں) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگوں کی ملازمتیں خطرے میں پڑ چکی ہیں۔
وہ کمپنی کے سیاٹل میں واقع ہیڈکوارٹر میں اپنی ٹیم کی جانب سے نئی پیشرفت سامنے لائے جانے کے بعد بات کر رہے تھے۔ شاید ان میں سب سے زیادہ سرخیاں حاصل کرنے والی مشین ’ڈیجٹ‘ تھی۔ ڈیجٹ ایک انسان نما مشین ہے جو ڈبے اٹھانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ بہت سے روبوٹس میں سے محض ایک ہے۔
ڈیجٹ کے بہت سے ساتھی پہلے ہی ایمازون میں اپنے کام میں بہت زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ ایمازون کے بہت سے گودام جنہیں تکمیلی مراکز جاتا ہے پہلے سے ہی خودکار نظاموں پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں۔ یہ نظام وہ کام کر رہے ہیں جو کبھی انسان کیا کرتے تھے۔
مثال کے طور پر ماضی میں ایمازون کے کارکن کوئی آرڈر ملنے کے بعد سامان سے بھری الماریوں کے جنگل میں چلے جاتے تھے جہاں سے وہ مطلوبہ شے لے کر اسے حالت میں واپس لایا کرتے تھے کہ اس پیک کر کے بھجوایا جا سکے۔
اب ایمازون کے بہت سے گوداموں میں موجود شیلف کارکنوں کے پاس پہنچتے ہیں یعنی چھوٹے روبوٹ الماریاں اٹھاتے ہیں اور انہیں کارکنوں کے پاس لے جاتے ہیں جو ان میں سے سامان نکالتے ہیں اور ان شیلفس کو واپس بھیج دیتے ہیں۔
مزید خودکار نطام آ رہا ہے۔ مثال کے طور پر فی الحال ایمازون کے روبوٹ زیادہ تر گوداموں کے اندر ہیں۔ وہاں تیار کیے گئے پیکج انسانوں کے ذریعہ مطوبہ جگہ پہنچائے جاتے ہیں۔ لیکن انسان نما روبوٹ ڈیجٹ اور اس کی طاقتور ٹانگوں کا مطلب ہے کہ یہ لوگوں کے پارکنگ جیسے کم مستحکم ماحول میں جانے کے لیے کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ بریڈی کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ ایمازون کی ڈلیوری چین کے ذریعے روبوٹس کا ’بہت گہرا اثر‘ پڑے گا۔ وہ آخر کار آپ کے دروازے پر پہنچ سکتے ہیں۔
ایمازون کا کہنا ہے کہ روبوٹس نے اس کے کام کو زیادہ مؤثر اور زیادہ محفوظ بنا دیا ہے۔ لیکن اس سے یہ خدشہ بھی پیدا ہوا ہے کہ جب یہ کام روبوٹ انجام دیں گے تو ان لوگوں کی ملازمت غیر ضروری ہو جائے گی جو یہ کام کیا کرتے تھے۔
کمپنی کو اس صورت حال پر واضح طور پر تشویش ہے۔ اس ہفتے روبوٹس کے بارے میں اپنے اعلانات کے ساتھ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور پولنگ کمپنی اپسوس کے ساتھ مل کر نئی تحقیق شروع کرے گی تاکہ بہتر طور پر یہ سمجھا جاسکے کہ لوگ اپنی جگہ کام پر آنے والے روبوٹس کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔
لیکن بریڈی اس بات سے بھی صاف انکار کرتے ہیں کہ روبوٹس کی پیش قدمی کا مطلب یہ ہے کہ ایمازون میں عملے کی تعداد میں کمی آئے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے استعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا، ایمازون مزید کام کرے گی۔ اگرچہ ہر عمارت میں عملے کی تعداد کم ہوسکتی ہے لیکن ایمازون کے پاس زیادہ عمارتیں ہوں گی۔ وہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے تھے کہ ایمازون کی روبوٹکس میں سرمایہ کاری 2012 میں شروع ہوئی تھی اور اس کے بعد سے کمپنی نے لاکھوں نئی ملازمتیں ، اور سات سو نئی قسم کی ملازمتیں پیدا کی ہیں۔
پھر بھی روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت سے ملازمتوں کے لیے خطرہ حقیقی ہے اور بڑھ رہا ہے۔ قبل ازیں اس سال عالمی انویسٹمنٹ بینکنگ اور فائنینشل سروسز فرم گولڈمین ساکس کا اندازہ کہ نئی ٹیکنالوجی 30 کروڑ ملازمتیں ختم کر سکتی ہے جب کہ باقی رہنے والی ملازمتوں میں اجرت کم ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر موسم گرما میں بی ٹی (برطانوی ٹیلی مواصلاتی کمپنی) نے کہا کہ وہ خودکار خدمات کی طرف منتقلی میں اپنی 40 فیصد سے زیادہ افرادی قوت کو کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ایمازون کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے روبوٹس کی وجہ سے ملازمین کو فارغ نہیں کیا اور اس کے تکمیلی مراکز میں افرادی قوت بڑھ کر ساڑھے سات لاکھ افراد تک پہنچ گئی ہے۔ لیکن اسے تنخواہوں اور دیگر شرائط پر یونینوں کی طرف سے عوام تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ کی جی ایم بی یونین نے آٹومیشن کے منصوبوں کو ’ملازمتوں کا تیزی سے خاتمہ‘ قرار دیا ہے۔
بریڈی کا کہنا ہے کہ کارکنوں کی بجائے مخصوص قسم کے کام ختم ہو جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں عام، بار بار کیے جانے والے اور ایسے کام ختم کرنا چاہتا ہوں جن میں دماغ کا زیادہ استعمال نہیں ہوتا۔ یہ وہ عمل ہے جس میں مشینیں بہتر ہیں۔ دوسری طرف، انسان منطقی استدلال اور مسئلے کو حل کرنے میں بہتر ہیں۔ بریڈی کا کہنا ہے کہ وہ انہیں یہی کام کرنے کا موقع دینا چاہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ملازمین اب بھی روبوٹس کے ساتھ کام کر سکتے ہیں۔ وہ ایک ہی وقت میں بہت سی مشینوں کی نگرانی کر رہے ہوں گے، یا یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوں گے کہ کیوں کچھ اشیا روبوٹس کے ذریعہ منتخب کیے جانے کے قابل نہیں ہیں، وغیرہ۔
اس ضمن میں بریڈی کی دلیل ایک واضح مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے چیزوں کو ڈیزائن کرنے کے بارے میں ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس عمل میں ۔ صرف خودکار نظاموں یا مشینوں پر انحصار کرنے کی بجائے حقیقی لوگوں کو شامل کرنا ضروری ہے۔
اس طرح ایم آئی ٹی میں ایروناٹکس اور خلا بازی کی پروفیسر جولیا شا، جو ایمازون کے تحقیقی منصوبے پر کام کر رہی ہیں، کی باتوں پر روشنی پڑتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’جب ٹیکنالوجی کے ڈیزائن اور استعمال میں انسانوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے تو اس کے کارکنوں اور کمپنیوں کے لیے بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔‘ ان کا مشورہ ہے کہ کسی روبوٹ کا بہترین کام ’فعال مددگار‘ ہونا ہے جو لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرے۔
اس کی ایک وجہ روبوٹس کی ناکامیاں ہیں۔ بریڈی کا کہنا ہے کہ ’میرا کوئی حصہ ایسا نہیں‘ جو کبھی یہ سوچتا ہو کہ ایمازون پر صارفین کے آرڈرز کو پورا کرنے کے عمل کو مکمل طور پر خودکار بنانا ممکن ہوگا۔
روبوٹس غلطیاں کرتے ہیں۔ اگر وہ معمولی قیمت پر بھی ایسا کریں تو کمپنی نے پچھلے سال آٹھ ارب پیکج بھیجے لہٰذا غلطیوں میں تیزی سے اضافہ ہوسکتا ہے۔ انسانوں کے پاس کچھ صلاحیتیں ہیں جن کا مطلب ہے کہ وہ ان غلطیوں کو روکنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ یعنی انسانوں کی اعلیٰ معیار کی سوچ اور مسائل کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت۔ ’ہمارے پاس (ہمارے دماغ میں) ایک چھوٹا سا کمپیوٹر ہے جو بہت ہلکا پھلکا ہے اور گرینولا سنیک بار سے (ملنے والی توانائی پر) کام کرسکتا ہے۔‘
’یہ ایک زندہ کمپیوٹر ہے جو ہمارے پاس ہے اس کے پیچھے 10 لاکھ سال کا ارتقا ہے۔ کسی بھی دنیا میں آپ اس سے فائدہ کیوں نہیں اٹھانا چاہیں گے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بریڈی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایک خیال کی طرف اشارہ کیا تھا کہ ہم ’مختصر مدت میں ٹیکنالوجی کو زیادہ اہمیت دینے لگتے ہیں اور مستقبل میں ٹیکنالوجی کو نظر انداز کر دیتے ہیں‘۔ وہ کیسے جانتے ہے کہ وہ انسانی دماغ سے آگے بڑھنے کی صلاحیت کے ساتھ اب ایسا نہیں کر رہے؟ بہرحال کچھ سال پہلے ہم نے فنکارانہ تصاویر یا شاعری کو فطری اور ہمیشہ کے لیے انسانی تخلیقی کے طور پر دیکھا ہو گا لیکن تخلیقی صلاحیت کے مالک مصنوعی ذہانت ڈی اے ایل ایل ۔ ایاور چیٹ جی پی ٹی جیسے نظام نے انسان کی اس صلاحیت کو گہنا دیا ہے۔
بریڈی کہتے ہیں کہ اگرچہ ان ٹولز نے ترقی کی ہے لیکن وہ اب بھی صرف ایک آلے کی طرح ہیں۔ بریڈی کا کہنا ہے کہ وہ پینٹ کرنا پسند کرتے ہیں اور خود بخود تیار کی گئی تصاویر کو ترغیب کے طور پر لیتے ہیں۔ لیکن ان کی ڈرائنگ بنیادی طور پر مصنوعی ذہانت کے نظام سے کہیں زیادہ انسانی اور تخلیقی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی انسانوں کی جگہ نہیں لیتی بلکہ ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرتی ہے۔
مثال کے طور پر میڈیکل کے شعبے میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ’مشین لرننگ سسٹم ڈاکٹر کے مقابلے میں چھاتی کے سرطان کا بہتر طور پر پتہ لگا سکتا ہے لیکن مشین لرننگ سسٹم مریض کو چھاتی کے کینسر کے بارے میں نہیں بتاتا یا اس کا علاج نہیں کرتا۔ خودکار نظام ایک ’آلہ‘ ہے جو ’ڈاکٹروں کو ان کا کام زیادہ مؤثر انداز میں انجام دینے کے قابل بناتا ہے۔‘
بریڈی کا کہنا ہے کہ ایمازون کے روبوٹس کے بارے میں ان کا یہی نظریہ ہے۔ ’ہم نے اس مشین کو اس طرح سے ڈیزائن کیا ہے جو ہمیں زیادہ پیداواری بناتی ہے اور اپنے ملازمین کے لیے محفوظ تر ماحول بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ دیکھ بھال اور سوچ اور ہمارے ملازمین کی آواز سسٹم تیار کرنے والے ہمارے ڈیزائنرز پر ایک بہتر مشین بنانے کے لیے اثرانداز ہوتی ہے تاکہ ہم کامیابی حاصل کر سکیں۔ جب ای کامرس کی بات آتی ہے تو میرے دماغ میں ایسا کام آتا ہے جس کی مثال موجود نہیں۔‘
© The Independent