نئی تحقیق کے مطابق نیئنڈرتھال اس سے زیادہ ذہین تھے جیسا کہ اس سے قبل ان کے بارے میں سمجھا گیا۔ وہ آگ کے استعمال اور اس کی مدد سے کھانا بنانے میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کوئی الگ انسانی نسل کی بجائے ’مختلف انسانی شکل‘ کے قریب تھے۔
پلوس ون نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نیئنڈرتھال علامتوں کے بارے میں سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔ وہ فن پارے تخلیق کر سکتے تھے، وہ ذاتی زیورات کا استعمال کرتے ہوئے سجنا سنورنا جانتے تھے، ان کی غذا انتہائی متنوع تھی۔
اٹلی کی یونیورسٹی ڈی ٹرینٹو سے تعلق رکھنے والی ایلیسانڈرا سیلٹی سمیت سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نیئنڈرتھال کو پکا ہوا کھانا کھانے کی عادت تھی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ممکنہ طور پر اتنے ہی ہنر مند تھے جتنے ہزاروں سال بعد میں آنے والے قدیم ذہین انسان۔
تحقیق کے شریک مصنف ڈیاگو اینجلوچی کا کہنا ہے کہ ’اس تحقیق میں ہم نے ثابت کیا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیئنڈرتھال آگ جلا سکتے ہیں اور آگ ان کی روزمرہ زندگی کا مرکزی جزو تھی۔‘
تحقیق میں وسطی پرتگال کے گروٹا ڈی اولیویرا میں پائی جانے والی آگ کی باقیات کو شامل کر کے ان کا موازنہ کیا گیا۔ یہ مقام پتھر کے وسطی زمانے کے حوالے سب سے اہم یورپی آثار قدیمہ کے مقامات میں سے ایک ہے۔
یہ غار المونڈا کی غاروں کے سلسلے کا ایک حصہ ہے۔ غاروں کا المونڈا نامی وسیع نیٹ ورک ایک بڑے چشمے سے اوپر مختلف اونچائیوں پر واقع ہے۔ ان غاروں کا تعلق مختلف قبل از تاریخی ادوار کے ساتھ ہے۔
اس کی قدیم ترین پرتوں میں تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار سال پہلے کے متعدد راستے شامل ہیں اور سب سے تازہ ترین تقریباً 40 ہزار سال قدیم ہیں۔ نیئنڈرتھال ممکنہ طور پر ایک لاکھ سے 70 ہزار سال پہلے اس جگہ پر رہتے تھے۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کو عرض میں تقریباً 30 مربع میٹر اور چھ میٹر گہرے علاقے میں مختلف سطحوں پر غار میں ارادے کے ساتھ بنائے گئے اور استعمال کیے جانے والے تقریباً ایک درجن چولہوں کے آثار ملے۔
نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ غاروں کے مکین اپنے لیے کھانا بناتے تھے۔
ڈاکٹر اینجلوچی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں جلی ہوئی ہڈیاں، جلی ہوئی لکڑی اور راکھ کی باقیات ملی ہیں اور نیچے موجود چٹان حدت کی وجہ سے سرخ ہو چکی ہے۔ یہ ایک اہم تفصیل ہے کیوں کہ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ساخت اپنی بنیادی حالت میں ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر اینجلوچی کے مطابق: ’اور یہ ہمیشہ وہاں موجود رہی ہے۔ آگ ان کی روزمرہ زندگی کا ایک بنیادی جزو ہے۔ یہ جگہ کو آرام دہ بناتی ہے اور سماجی رابطے میں مدد کرتی ہے۔ یہ ’گھر‘ کا وہ بنیادی خیال متعارف کرواتی ہے جو شاید ان کے لیے بھی ہوسکتا ہے۔‘
سائنس دانوں کو پکی ہوئی بکریوں، ہرن، گھوڑوں، اوراکس (معدوم بیل)، گینڈوں اور کچھوؤں کی باقیات اور جلی ہوئی ہڈیاں ملی ہیں جنہیں ممکنہ طور پر غار میں گرم پتھروں پر پشت کے بل رکھ کر پکایا گیا۔
تاہم انہیں یقین نہیں ہے کہ نیئنڈرتھال نے آگ کیسے جلائی۔
محققین کے بقول: ’شاید انہوں نے پتھر کے نئے دور کی طرح پتھر پر پتھر کو مار کر خشک گھاس پھونس پر چنگاریاں پھینکیں۔ مثال کے طور پر خشک گھونسلا۔ یہ ایک قبل از تاریخی تکنیک ہے جسے برفانی انسان اوزی کا مطالعہ کرکے دریافت کیا گیا۔ تاہم اب تک ہمیں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔‘
اس کے بعد تقریباً 30 ہزار سال قدیم پرتوں کی کھدائی کرکے آثار قدیمہ کے ماہرین نے اعداد و شمار کا موازنہ اسی علاقے کے زیادہ جدید دور کے دیگر مقامات سے کیا جب اس علاقے میں ذہین انسان کی موجودگی کی تصدیق ہو گئی۔
مطالعے کے مصنفین میں سے ایک ڈیاگو اینجلوچی نے کہا کہ ’ہمیں کوئی فرق نہیں ملا۔ وہ غاروں میں اسی طرح رہتے تھے۔ ان کی مہارت بھی ذہانت کی علامت ہے۔‘
’نیئنڈرتھال کا تعلق مختلف انسانی نسل سے نہیں تھا۔ میں یہ کہوں گا کہ وہ انسان کی مختلف شکلیں تھے۔‘
© The Independent