ننھی جوآن باپ سے اصرار کرتی ہے اسے تھوڑا سا پانی پلایا جائے۔ باپ کو احساس ہوا کہ چھوٹی بچی پیاس برداشت نہیں کر سکتی۔ وہ فوراً 10 سینٹی میٹر کی میڈیکل سرنج لے کر آئے اور بوتل سے تازہ پانی کے قطرے نکال کر اپنی بیٹی کے منہ میں ڈالے۔
بچی کے والد ابراہیم ایسا کرنے پر مجبور ہیں، کیونکہ گھر میں پانی کی زیادہ مقدار موجود نہیں ہے۔ غزہ میں اسرائیلی حملوں کے تیسرے روز ابراہیم کے گھر میں محض 15 لیٹر پانی بچا ہے، جس میں سے پانچ لیٹر پینے کا ہے، جبکہ باقی دیگر استعمال کے لیے۔
ابراہیم پانی کی اس قلیل مقدار کو زیادہ سے زیادہ عرصے کے لیے برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن ایسا ممکن نظر نہیں آ رہا۔
وہ کہتے ہیں: ’پانی حاصل کرنا ایک مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ پانی زندگی کے لیے بہت ضروری ہے اور اسے بجلی، انٹرنیٹ اور ایندھن کی طرح ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے میں ذاتی طور پر ہر قطرے کے استعمال کی نگرانی کرتا ہوں اور کسی کو تصرف کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘
اسرائیل کی جانب سے غزہ کو پینے کے پانی کی سپلائی منقطع ہونے کے بعد فلسطینیوں کا یہ علاقہ تین ہفتوں سے پانی کے شدید بحران سے دو چار ہے۔
ابراہیم کو ایک ہفتے تک پانی سے محروم رہنے کے بعد تین روز قبل چند لیٹر پانی ملا تھا۔ اس لیے وہ اپنے گھر میں اس کے استعمال کو باضابطہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اپنی زندگی میں بے شمار مشکلات اور چیلنجز کا سامنے کرنے والے ابراہیم بڑی مشکل سے پانی لا سکے تھے۔
انہوں نے یاد کیا: ’پینے کا پانی ختم ہونے کے بعد میں منرل واٹر خریدنے دکان پر گیا تھا، لیکن مجھے کوئی بوتل نہیں ملی۔ تب میں نے محسوس کیا کہ ہم پانی کو ترسیں گے اور میں سمجھ گیا کہ یہ جنگ فاقہ کشی کی پالیسی پر چل رہی ہے۔‘
تلاش کا سفر
انراہیم ایک صبح چھ بجے خالی بوتل اور پلاسٹک کے برتن اٹھائے پانی کی تلاش پر نکل کھڑے ہوئے تھے۔
وہ پانچ کلومیٹر تک شہر کی گلیوں میں پھرتے رہے۔ ایک مقام پر انہوں نے کچھ افراد کو پلاسٹک کی بوتلیں یا کین اٹھائے دیکھا اور انہیں اندازہ ہوا کہ پانی کا کنواں قریب ہے۔
غزہ کے رہائشی پانی کے استعمال کے لیے تین ذرائع پر انحصار کرتے ہیں، جن میں پہلا اسرائیلی لائنوں سے حاصل ہونے والا پانی ہے، جس کی سالانہ مقدار 18 ملین کیوبک میٹر ہے اور کو صرف پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
دوسرا زیر زمین کنویں ہیں، لیکن وہ اپنے انتہائی نمکین ہونے کی وجہ سے انسانی استعمال کے لیے بالکل غیر موزوں ہیں۔ تاہم ان کنوؤں سے حاصل ہونے والا پانی پینے کے علاوہ دوسرے مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
تیسرا ذریعہ بحیرہ روم میں اقوام متحدہ کے تین ڈی سیلینیشن پلانٹس ہیں، جو مجموعی طور پر سالانہ 50 لاکھ مکعب میٹر پانی پیدا کرتے ہیں۔
غزہ کے اسرائیلی محاصرے کے نتیجے میں یہ تمام ذرائع مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں، کیونکہ کنوؤں سے پانی نکالنے یا ڈی سیلینیشن پلانٹس چلانے کے لیے غزہ میں ایندھن میسر نہیں ہے۔
غزہ کے باشندے ماضی میں پانی کے حصول کے لیے ان کے گھروں کے ساتھ کھودے گئے کنوؤں پر انحصار کرتے رہے ہیں، اور اس وقت بھی یہی کنویں غزہ کی پٹی میں پانی کا واحد ذریعہ ہیں۔
ان میں سے ایک کنوئیں کے قریب ابراہیم نے چند لیٹر نمکین اور تھوڑا سا میٹھا پانی حاصل کرنے کے لیے قطار میں کھڑے لوگوں کے ساتھ جھگڑا بھی کیا۔
کئی گھنٹوں بعد وہ اپنے پلاسٹک کے کنٹینرز کو زیادہ استعمال ہونے والے پانی کے 30 لیٹر سے بھرنے میں کامیاب ہوئے۔
انہوں نے کہا: ’ہم اسے برتن صاف کرنے، کپڑے دھونے، شاور کرنے اور غسل خانوں میں استعمال کریں گے۔‘
استعمال پر پابندی
ابراہیم اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ انہیں تھوڑا سا پانی ملا اور انہیں پورا احساس ہے کہ شاید کوشش کے باوجود دوبارہ ایسا ممکن نہ ہو سکے گا۔
وہ مزید کہتے ہیں: ’اگر میں دوبارہ خوش قسمت رہا تو میں کچھ مزید وقت کے لیے پیاس کے باعث موت سے بچ جاؤں گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ابراہیم اپنے گھر میں پانی کے استعمال پر سختی کر کے اسے بچاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: ’ترجیح یہ ہے کہ پانی کم سے کم اور محدود مقدار میں ناپ کر پیا جائے اور کپڑے دھونے، نہانے میں بھی اس کا اسراف نہ کیا جائے۔‘
اقوام متحدہ کے مطابق: ’لوگ پیاس سے موت کے دہانے پر ہیں،‘ اور انروا کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی کہتے ہیں: ’غزہ میں پانی زندگی اور موت کا مسئلہ بن گیا ہے۔ وہاں لوگ کنوؤں کا ناپاک پانی پی رہے ہیں اور اقوام متحدہ کے اڈے پر پینے کا صاف پانی ختم ہونا شروع ہو گیا ہے۔‘
وہ اب عیش و عشرت میں نہیں رہے
غزہ میں حکومتی ایمرجنسی کمیٹی کے اسسٹنٹ چیئرمین زہدی الغاریز کا کہنا ہے: ’غزہ کی اکثریت کے پاس اب پانی کے معیار کے بارے میں پوچھنے کی آسائش نہیں ہے اور بہت سے لوگ نمکین، غیر صحت مند پانی پینے پر مجبور ہیں۔ پینے سمیت تمام دوسرے استعمال کے لیے فی کس یومیہ پانی آدھا لیٹر ہو گیا جبکہ جنگ سے پہلے یہ 22 لیٹر یومیہ تھا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’فی الحال ہم روزانہ 15 ہزار کپ فراہم کر سکتے ہیں، جبکہ غزہ کے باشندوں کو روزانہ تقریباً 30 لاکھ لیٹر کی ضرورت ہے۔ اس صورت حال میں ایسی جگہیں ہیں جہاں لوگوں نے سمندر کا پانی پینا شروع کر دیا ہے۔
اس صورت حال میں اسرائیل کے اسسٹنٹ انرجی منسٹر یسرائیل کاٹز کا کہنا ہے کہ ’ہم نے غزہ کے صرف جنوبی علاقے میں پانی کی سپلائی دوبارہ شروع کی ہے اور اس سے شہریوں کو وہاں جمع ہونے کی ترغیب ملے گی جب کہ اسرائیل غزہ شہر میں حماس کے ٹھکانوں پر حملہ کرے گا۔‘
لیکن غزہ میونسپلٹیز یونین کے کوآرڈینیٹر حسنی محنا نے تصدیق کی ہے کہ ’اسرائیل کی جانب سے لائنیں کھولنے کے باوجود پانی کا بحران موجود ہے، کیونکہ شہریوں کو پانی پمپ کرنے کے لیے بجلی میسر نہیں ہے۔‘