ستمبر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان( ٹی ٹی پی) نے افغانستان کے کنڑ اور نورستان صوبے میں اپنے سینکڑوں جنگجوؤں کو اکٹھا کرنے کے بعد خیبر پختونخوا کے ضلع چترال میں بڑے پیمانے پر حملے کیے۔
افغانستان پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد ٹی ٹی پی کی یہ پہلی سنجیدہ کوشش تھی۔ چار سے پانچ دن تک جاری رہنے والی شدید لڑائی کے بعد پاکستانی سکیورٹی فورسز نے اس حملے کو پسپا کر دیا۔ اس کوشش کے باوجود ٹی ٹی پی کو کوئی علاقائی کنٹرول ملا اور نہ ہی لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی جو عسکریت پسند گروپ بننے کے بنیادی عناصر میں شامل ہے۔
طالبان مقامی پشتون آبادی کی حمایت حاصل کرنے کی ناکام کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ٹی ٹی پی نے پشتون قوم پرستی کو اپنانے کی کوشش کی، جو روایتی طور پر ایک سیکولر تحریک رہی ہے ۔
یہاں تک کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظور پشتین سے اس بنیاد پر پاکستانی طالبان نے ماہانہ جریدہ مجلہ طالبان میں جنوری کے شمارے میں بات چیت کی پیشکش کی۔
علاقائی کنٹرول اور عوامی حمایت نہ ہونے کے باوجود ٹی ٹی پی امتیازی ہدف بنانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، یعنی سکیورٹی فورسز پر حملہ کرنا اور کمزور اہداف سے گریز کرنا۔
دوسرے لفظوں میں ٹی ٹی پی نے علاقے کو کنٹرول کیے بغیر یا عوامی حمایت حاصل کیے بغیر ایک باغی گروپ کا طرز عمل اپنایا ہوا ہے۔
موجودہ صورت حال کے تناظر میں ٹی ٹی پی ایک ’پروٹو باغی‘ یا ’ہائبرڈ دہشت گرد گروہ‘ یعنیٰ ایک ایسا گروہ ہے جو ایک ہی وقت میں ’دہشت گرد‘، باغی اور گوریلا حکمت عملی استعمال کرتا ہے۔
مزید برآں، ٹی ٹی پی نے بیانات کے ذریعے خود کو القاعدہ سے ایک ایسے موڑ پر دور کر لیا ہے جہاں اس نے ماضی میں القاعدہ کے قیام، مالی اعانت اور نظریاتی رہنمائی میں اپنے کردار کو مسترد کر دیا ہے۔
ٹی ٹی پی نے بار بار اپنی پاکستان کی حد تک توجہ کا اعادہ کیا ہے ، یہاں تک کہ عالمی برادری کو اشارہ دیا کہ وہ افغان طالبان جیسی شرعی ریاست کے قیام کے لیے پاکستانی ریاست سے لڑ رہی ہے۔ یہ متنازع ایڈجسٹمنٹ ٹی ٹی پی کی سیاسی ہوشیاری پر خاصی توجہ دیتی ہیں۔
تنقیدی طور پر دیکھا جائے تو ٹی ٹی پی کا گروپ العمر میڈیا کے بیانات اور دیگر پروپیگنڈا ذرائع پہلے سے مضبوط ہو چکے ہیں۔ العمر میڈیا ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ القاعدہ برصغیر پاک و ہند کے پروپیگنڈا چیف قاری منیب جٹ کے ٹی ٹی پی میں شامل ہونے کے بعد گروپ کے پروپیگنڈے کا لسانی اور ادارتی معیار کافی حد تک بہتر ہوا ہے۔
اس سے پہلے وہ القاعدہ کے پروپیگنڈا ونگ الصحاب سے میڈیا آپریشنز چلا رہے تھے۔
مزید برآں، ٹی ٹی پی نے اپنے تنظیمی ڈھانچے کو نئے ماڈل کے ساتھ ایک مضبوط مرکزی فریم ورک میں تبدیل کیا ہے۔ ٹی ٹی پی نے پاکستان میں اپنی عسکری کارروائیوں کو دو زونز میں تقسیم کیا ہے یعنی شمال اور جنوب۔
اسی طرح، اس نے سات شیڈو وزارتیں، انٹیلی جنس، خودکش اور تربیتی یونٹس، تین پرتوں پر مشتمل عدالتی نظام، ایک اسلامی فقہ کا ادارہ، ایک ہاؤسنگ ڈیپارٹمنٹ اور 12 ولایت (صوبوں) کا اعلان کیا ہے۔
ان اقدامات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ٹی ٹی پی پر افغان طالبان کا گہرا اثر و رسوخ ہے۔ یہ فیصلے 2022 میں لیے گئے تھے لیکن اس پر مرحلہ وار عمل کیا جا رہا ہے اور 2023 میں بھی جاری ہے۔
ٹی ٹی پی پاکستان میں اپنی موجودگی کو بڑھانے کے لیے افغانستان میں اپنی سرحد پار پناہ گاہوں کی موجودگی کو استعمال کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ 2008-2013 کی مدت کے دوران اپنے عروج پر ٹی ٹی پی پنجاب میں خاطر خواہ قدم جمانے میں ناکام رہی۔
پنجابی طالبان کے ساتھ مضبوط گٹھ جوڑ کے باوجود، جو کشمیری عسکریت پسند گروپوں اور شیعہ مخالف فرقہ وارانہ تنظیموں کے الگ ہونے والے دھڑوں کا ایک مجموعہ تھا، ٹی ٹی پی تنظیم نو پر توجہ دے رہی ہے، جس میں پہلی بھرتی کے عمل کو پنجاب تک پھیلانا، دوسرا پاکستان میں پبلسٹی کے لیے ہائی پروفائل حملے کرنا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تیسرا اس تاثر کو زائل کرنا کہ پاکستان پر مبنی بیان بازی کے باوجود ٹی ٹی پی ایک پشتون عسکریت پسند گروپ ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹی ٹی پی نے کامیابی کے ساتھ بلوچستان کے پشتون اکثریتی علاقوں میں قدم بڑھایا ہے اور 2023 میں کئی ہائی پروفائل حملے کیے۔
ٹی ٹی پی کی توسیع 40 سے زائد عسکریت پسند دھڑوں کا اس گروپ میں شمولیت سے ممکن ہوئی، جنہوں نے مفتی نورولی محسود سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے، جس سے اس گروپ کی آپریشنل اور تنظیمی طاقت کو بڑھانا ممکن ہوا اور اس وقت اس گروپ کی صفوں میں آٹھ سے 10 ہزار عسکریت پسند ہیں۔
سابقہ فاٹا میں پاکستانی ریاست لوگوں کے ساتھ وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس موقعے سے تحریک طالبان پاکستان نے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ تاہم یہ امر قابل ذکر ہے کہ فاٹا کے لوگوں میں ٹی ٹی پی کے لیے کوئی ہمدردی نہیں۔
افغان طالبان کی واپسی اور اس گروپ کو افغانستان میں پناہ گاہیں فراہم کرنا کے علاوہ ملک میں سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کا ٹی ٹی پی نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
پاکستان میں ناکام جمہوری طرز حکمرانی کے متبادل کے طور پر طالبان شرعی نظام جیسے منصوبہ پیش کر رہے ہیں۔
تنقیدی طور پر ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی دوسری اور تیسری نسل افغانستان کے طالبان کے زیر انتظام مدارس میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔
ٹی ٹی پی کی پہلی نسل کے برعکس نئی نسل زیادہ بنیاد پرست اور اس کی پاکستان کے ساتھ وابستگی کمزور ہو گی۔
مصنف ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، سنگاپور میں سینیئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X @basitresearcher
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔