2023 کے پہلے نو ماہ میں پاکستان کے 386 سکیورٹی اہلکار شدت پسندانہ حملوں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں 137 فوجی جبکہ 208 پولیس اہلکار شامل تھے۔ گذشتہ آٹھ سالوں میں یہ پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کا دہشت گردانہ حملوں میں سب سے زیادہ جانی نقصان ہے۔
افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے تشدد میں 73 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سکیورٹی کے منظرنامے کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ تشدد کی یہ لہر مزید بڑھے گی۔
اس پس منظر میں پاکستان کے موجودہ انسداد دہشت گردی اور انتہا پسندی کے فریم ورک تیزی سے تبدیل ہوتے خطرات کا موثر جواب دینے کے لیے موزوں نہیں ہیں۔
پاکستانی فوج نے ایک طویل آزمائش اور بڑی مدت کے بعد بالاخر 2009 میں دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے مستقل کارروائیاں شروع کی تھیں۔
ان کے نتیجے میں 2015-2019 کے عرصے میں شدت پسندانہ کارروائیوں میں واضح کمی آئی تھی اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ علیحدگی پسند نیٹ ورکس نمایاں طور پر کمزور ہو گئے تھے۔
تاہم جیسے جیسے پاکستان میں تشدد میں کمی آئی، اطمینان پیدا ہوا تو امن کی بحالی کے ساتھ ایک الجھن پڑ گئی۔ ریاست کو دہشت گردی کے خلاف اپنی کامیابیوں کی نزاکت کا احساس نہیں ہوا۔
باریک بینی سے دیکھا جائے تو اس عرصے کے دوران پاکستان بھر میں دہشت گردانہ حملوں میں خاطر خواہ کمی کے باوجود، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کے بنیادی عوامل مزید خراب ہوئے۔
نائن الیون کے بعد پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ مقامی تھا اور یہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، شیعہ مخالف دیوبندی عسکریت پسند گروپوں اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے تھا۔
تاہم اب اندرونی خطرہ بیرونی طور پر فعال ہو گیا ہے (ٹی ٹی پی افغان پناہ گاہوں کے ذریعے) اور عسکریت پسند اور قوم پرست علیحدگی پسند دونوں نئی شکلوں کے خطرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
مثال کے طور پر، ٹی ٹی پی ماضی کے مقابلے میں سٹریٹجک طور پر بالغ، سیاسی طور پر سمجھدار اور اپنے سوشل میڈیا پروپیگنڈے میں زیادہ فعال ہو گئی ہے۔ تنظیمی نظم و ضبط اور مختلف ’جہادی دھڑوں‘ کے دوبارہ اتحاد پر توجہ مرکوز کرکے ٹی ٹی پی پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی ہے اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان دونوں صوبوں میں اپنی موجودگی بڑھا رہی ہے۔
مزید برآں، عسکریت پسندوں کا خطرہ زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ اس میں نئے کردار ابھرے ہیں۔ اسلامک سٹیٹ آف خراسان (داعش خراسان) اب پاکستان کی داخلی سلامتی کو نقصان پہنچانے والا دوسرا سب سے زیادہ طاقتور گروپ بن کر ابھر رہا ہے۔ اس نے لشکر جھنگوی اور جند اللہ جیسے گروہوں کو اپنے حصار میں لے لیا ہے۔
اسی طرح بلوچ شورش ایک قبائلی تحریک سے تعلیم یافتہ، متوسط طبقے کی جدوجہد میں تبدیل ہوئی ہے جو علیحدگی پسندی کی حمایت کرتی ہے اور خودکش حملوں جیسے مزید پرتشدد حربوں کو اپنا رہی ہے۔
افغانستان میں امریکی انخلا اور طالبان کی اقتدار میں واپسی نے تشدد کی لہر میں اضافے کی وجہ سے پاکستان کے لیے غیرمعمولی خطرات کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم، پاکستان کا انسداد دہشت گردی اور انتہا پسندی کا طریقہ کار اس کے مطابق تبدیل نہیں ہوا ہے۔ اس کے برعکس، طالبان کے قبضے کے فوراً بعد ٹی ٹی پی سے بات کر کے پاکستان کی اس وقت کی عسکری اور سیاسی قیادت نے دہشت گرد نیٹ ورکس سے لڑنے کے لیے دسمبر 2014 میں پشاور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد بنائے گئے سخت گیر قومی اتفاق رائے سے سمجھوتہ کیا۔
بے نتیجتاً امن مذاکرات نے نہ صرف ٹی ٹی پی کے کچھ دھڑوں کو پاکستان واپس آنے کی اجازت دی بلکہ اس سے انہوں قانونی حیثیت بھی حاصل کی جس کے نتیجے میں پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں زیادہ فعال ہوئی ہیں۔
افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے بین الاقوامی اتفاق رائے کی عدم موجودگی میں پاکستان کو متعلقہ علاقائی ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ چین، ایران، روس اور وسطی ایشیائی جمہوریہ جیسے ممالک کو افغانستان سے دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے پر یکساں طور پر تشویش ہو۔
روس کے شہر کازان میں افغانستان پر ماسکو فارمیٹ مذاکرات کا حال ہی میں اختتام پذیر ہونے والا اجلاس اس کی ایک مثال ہے۔ اسی طرح پاکستان کو اپنے انسداد دہشت گردی اور انتہا پسندی کے فریم ورک پر نظرثانی کرنے سے پہلے موجودہ خطرے کے منظرنامے کا ازسر نو جائزہ لینا چاہیے۔
پاکستان میں تیزی سے تبدیل ہوتے سکیورٹی منظرنامے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں دہشت گردی کی لہر برقرار رہے گی اور معاشرے میں تبدیلی لانے کے لیے پرتشدد ذرائع کی اپیل کو کم کرنے کے لیے ریاست کو طویل المدتی طریقہ کار اپنانا ہوگا۔
اس مقصد کے لیے پرامن سیاسی سرگرمیاں، جمہوریت کو فروغ دینا اور نوجوانوں کو بااختیار بنانے کی جانب پیش رفت بڑھانی ہوگی۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔