عسکریت پسندوں کا سوشل میڈیا پروپیگنڈا

افغانستان اور پاکستان کا بنیاد پرست سوشل میڈیا ایکو سسٹم تیزی سے بدل رہا ہے۔ افغانستان میں نقصانات کا سامنے کرنے اور میدان جنگ میں شکست کے باوجود داعش خراسان کی ڈیجیٹل سپیس میں موجودگی برقرار ہے۔

15 نومبر 2021 کو قندھار میں طالبان کا ایک رکن داعش خراسان کے خلاف آپریشن کے بعد مشتبہ ٹھکانے کے ملبے کے سامنے پہرہ دے رہا ہے (اے ایف پی)

پروپیگنڈا دہشت گرد گروہوں کے لیے آکسیجن کی مانند ہے کیونکہ ان کا بنیادی مقصد صرف دہشت پھیلانا نہیں بلکہ اپنے مطالبات اور مقاصد کو اجاگر کرنے اور ان کے اسباب اور شکایات کی طرف توجہ مبذول کروانا بھی ہے۔

دہشت گردی‘ اس عمل کے پروپیگنڈے کے طور پر ایک مواصلاتی آلہ ہے اور تشدد کے عمل کے ذریعے سامعین کو متوجہ کرتی ہیں۔

دہشت گردی اور انسداد دہشت گردی کے تناظر میں، ڈیجیٹل دنیا کی ترقی اور زندگی کے تمام شعبوں میں ان کی رسائی نے میدانِ جنگ کو سائبر دنیا تک پھیلا دیا ہے۔

ان سہولیات نے دہشت گرد گروپوں کو سوشل میڈیا بطور ہتھیار استعمال کرنے پر مجبور کیا ہے۔

جہادی گروپ سوشل میڈیا پروپیگنڈے کو ’میڈیا جہاد‘ کہتے ہیں، جہاں ایک کیمرا مین اتنا ہی اہم ہوتا ہے جتنا کہ بندوق بردار۔

گیلوے نے 2015 میں میڈیا جہاد کی تعریف الفاظ اور تصویروں سے بنی نفسیاتی جنگ کے طور پر کی ہے جو (دہشت گرد) تنظیمیں وسیع پیمانے پر استعمال کرتی ہیں۔ تنقیدی طور پر، میڈیا جہاد نے میدان جنگ میں ہونے والی نقصانات اور تنظیمی کمزوریوں کے باوجود القاعدہ اور اسلامک سٹیٹ (داعش) جیسی تنظیموں کو اپنے نظریاتی بیانیے اور جہادی برانڈز زندہ رکھنے میں مدد دی ہے۔

افغانستان اور پاکستان کا بنیاد پرست سوشل میڈیا ایکو سسٹم تیزی سے بدل رہا ہے۔ افغانستان میں نقصانات کا سامنے کرنے اور میدان جنگ میں شکست کے باوجود داعش خراسان کی ڈیجیٹل سپیس میں موجودگی برقرار ہے۔ طالبان کے افغانستان میں قبضے کے بعد داعش کے خلاف عالمی مہم کے سبب حالیہ ناکامیوں کے باوجود تنظیم سے منسلک 374 یو آر ایل (اکاؤنٹس) فعال تھے۔

ٹیک اگینسٹ ٹیررازم کے مطابق، ان میں سے تقریباً 211 کو ہٹا دیا گیا ہے، تاہم کم از کم 163 اب بھی فعال ہیں۔

اگر داعش خراسان کے میڈیا نیٹ ورکس اور ڈیجیٹل اثرات کو مؤثر طریقے سے نہیں روکا جاتا تو وہ علاقائی اور عالمی امن کو نقصان پہنچانے کی اپنی صلاحیتوں کا دائرہ کار کو وسیع کر سکتا ہے۔

مارچ 2023 میں داعش خراسان سے منسلک 15 دہشت گرد یورپی سفارت خانوں، قونصل خانوں، گرجا گھروں اور دیگر مفادات کو نشانہ بنانے سے پہلے دھر لیے گئے تھے۔

داعش خراسان سے منسلک میڈیا گروپ ’العزائم‘ 12 کے قریب مختلف زبانوں میں پروپیگنڈا مسلسل پھیلا رہا ہے لیکن اس کے مواد کا بڑا حصہ (تقریباً 70 فیصد) پشتو میں ہے اور باقی اصل مواد کے ترجموں پر مشتمل ہیں۔

یہ ’النبا‘ کی تحریروں کا پشتو، اردو، دری، ازبک، تاجک، روسی اور کبھی کبھار بنگالی اور اویغور زبان میں بھی ترجمہ کرتے ہیں۔ بعد میں ان تراجم کو مخلتف ذرائع سے نشر کیا جاتا ہے۔

العزائم کے زیرنگرانی بالترتیب انگریزی، پشتو اور اردو میں تین ماہانہ رسالے ’وائس آف خراسان‘ ’خراسان غگ‘ اور ’یلغار‘ شائع ہوتے ہیں۔

داعش خراسان کے پروپیگنڈے کا بڑا حصہ نظریاتی اور حکمت عملیوں کی کتابوں، طویل مونوگراف اور دستورالعمل کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ یہ گروپ اپنے حملوں کے انفوگرافکس بھی شائع کرتا ہے جو داعش خراسان دو ہفتہ وار نیوز لیٹرز ’النبا‘ کے ساتھ ساتھ آڈیو اور ویڈیو بیانات کی صورت میں شائع کرتی ہے۔

اسی طرح تحریک طالبان پاکستان کا سوشل میڈیا پروپیگنڈہ ونگ ’العمر‘ بھی افغان طالبان کے قبضے کے بعد پروان چڑھا ہے اور زیادہ منظم ہو گیا ہے۔ اس کی اشاعت زیادہ منظم اور پیشہ ورانہ ہو گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

القاعدہ کے دو دھڑوں کے ٹی ٹی پی میں شامل ہونے سے گروپ کے پروپیگنڈے میں معیار میں بہتری آئی ہے۔  القاعدہ کے سابق میڈیا کو کنٹرول کرنے والے قاری منیب جٹ جو السحاب میڈیا کے آپریشنز چلا رہے تھے، اب ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا کو سنبھال رہے ہیں۔

ٹی ٹی پی کا زیادہ تر میڈیا مواد اردو اور پشتو زبانوں میں ہے اور کبھی کبھار اس کا دری/فارسی اور عربی میں ترجمہ بھی کیا جاتا ہے۔ ٹی ٹی پی اس مواد کو اپنی ویب سائٹس پر اپ لوڈ کرتا ہے اور گروپ کے وٹس ایپ اور ٹیلی گرام چینلز ان کو مزید پھیلاتے ہیں۔

ٹی ٹی پی کے حامی انہیں ٹوئٹر اور فیس بک پر بھی شائع کر دیتے ہیں۔

عمر میڈیا کی مصنوعات میں آڈیو اور ویڈیو بیانات پشتو میں روزانہ نشر ہونے والا ریڈیو، دو ہفتہ وار کرنٹ افیئرز پوڈ کاسٹ پاسون (بغاوت)، تین رسالے مجلہ طالبان اور بناتِ خدیجۃ الکبریٰ (خواتین کے لیے)، اردو اور پشتو زبان میں صدائے طالبان (اگست میں شروع ہوا) حالات حاضرہ کے بیانات اور حملے کے دعوؤں کی تشہیر کرتا ہے۔

آج کے دور میں سائبر سپیس میں نظریات کی جنگ جیتنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ میدان جنگ میں ان کے خلاف غالب رہنا۔ عسکریت پسندوں کا پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر پروان چڑھ رہا ہے اور کمزور طبقات اور حق رائے دہی سے محروم سماجی طبقات سے اپیل کی جاتی ہے، جسے وہ مذہبی لبادے میں لپٹے ہوئے آگے پھیلاتے ہیں۔

بیانیے کی جنگ میں نظریات کو گولی سے شکست نہیں بلکہ بہتر اور مضبوط خیالات سے شکست دی جاتی ہے۔

اس بیانیے کو کنٹرول کرنے کے لیے ریاست کی طرف سے جب تک گورننس کو بہتر نہیں بنایا جاتا عوام میں متضاد بیانیے کے فروغ ہونے کے امکانات کم ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کے ذاتی خیالات اور تجزیے پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

کالم نگار سنگاپور میں ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں ریسرچ فیلو ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر