فلسطین کا مقدمہ اور ہمارے معاشرے کے دو متضاد کردار

اگر میں ع غ کے سامنے فلسطین کا مقدمہ پیش کروں تو موصوف پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ جاتے ہیں اور یہ دلیل تراش لاتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ مسلمان ناخوش اور غیر مطمئن ہیں اور اس کی وجہ وہ خود ہیں۔

کراچی میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیے 22 اکتوبر، 2023 کو ریلی کے دوران شرکا پلے کارڈ اٹھائے ہوئے ہیں (روئٹرز)

ان سے ملیے، نام ہے ع غ، تخلص بھی یہی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ آپ شاعر نہیں ہیں۔ تخلص اس لیے رکھ چھوڑا ہے تاکہ لوگ آپ کو شاعر سمجھ کر ’غم غلط کرنے‘ کی رعایت دے دیا کریں۔

ان کا اصل تعارف یہ ہے کہ آپ لبرل ازم کے پرچارک ہیں، ملکی اور غیر ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، اکثر مجالس اور تقریبات میں آپ کو اظہار خیال کے لیے مدعو کیا جاتا ہے، اگر ایسی مجالس دن کے وقت ہوں تو احتیاطاً ساتھ اپنی (پانی کی) بوتل رکھ لیتے ہیں، تاہم رات کو انہیں یہ تردد نہیں کرنا پڑتا کہ شہر میں ان کے قدردانوں کی کمی نہیں۔

دل کے بجائے دماغ سے سوچتے ہیں اور قوم کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ہر معاملے میں جذباتی نہ ہوا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر معاملات میں ان کی رائے درست ہوتی ہے، وہ عقل و خرد کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں اور اکثر ایسی پوزیشن لے لیتے ہیں جو مقبول عام بیانیے سے مطابقت نہیں رکھتی اور یوں کبھی کبھار انہیں اچھی خاصی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

مگر سچی بات ہے کہ مسٹرع غ اس مخالفت کی پروا نہیں کرتے اور اپنی رائے پر ڈٹے رہتے ہیں، الا یہ کہ کوئی انہیں دلیل سے قائل کر لے۔

اس معاملے میں ان کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہو گی البتہ جہاں مذہب کی بات آ جائے وہاں نہ جانے کیوں ان کا تعصب جاگ اٹھتا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کو مار پڑ رہی ہو، ع غ صاحب لٹھ لے کر مسلمانوں کے ہی پیچھے پڑ جائیں گے کہ ہو نہ ہو انہی نے کچھ کیا ہو گا۔

اس بارے میں ان کی کیفیت اس باپ جیسی ہو جاتی ہے جسے ہر جھگڑے میں اپنی اولاد ہی قصور وار لگتی ہے۔ نہ جانے کیوں مذہب سے انہیں خدا واسطے کا بیر ہے، تاہم بوجوہ یہ اس بات کا کھلم کھلا اظہار نہیں کر سکتے۔

جب سے اسرائیل نے غزہ پر حملہ کیا ہے، مسٹر ع غ کے لیے دہری مشکل آن پڑی ہے، چوں کہ پوری امت مسلمہ فلسطین کے ساتھ (لولی لنگڑی ہی سہی) کھڑی ہے اس لیے آپ آئے دن اس کھوج میں رہتے ہیں کہ کسی طرح اس جنگ میں اسرائیل کی کارروائیوں کو جائز قرار دے دیں۔

ویسے اگر کوئی شخص رات 12 بجے کے بعد مسٹر ع غ کے سامنے ’امت مسلمہ‘ کی اصطلاح استعمال کر دے تو جھوم جھوم کر اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’اس نام کی کمپنی کب کی بند ہو چکی، اب بیچنے کے لیے کوئی نیا منجن لاؤ۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اب ط ظ سے بھی مل لیجیے، کاروباری آدمی ہیں، اچھے نیک اور صالح انسان ہیں، پانچ وقت نہ سہی مگر نمازی ہیں، جمعے کی نماز تو ضرور پڑھتے ہیں جس کے بعد امت مسلمہ کی ترقی اور خوشحالی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔

چونکہ جذباتی آدمی ہیں اس لیے بحث و مباحثے کے دوران اکثر غصے میں آ جاتے ہیں خاص طور پر اس وقت جب ان کے پاس دلیل ختم ہو جائے۔ ایسے میں بات چاہے دنیا کے کسی بھی موضوع پر ہو رہی ہو ط ظ صاحب مغربی ممالک میں کیڑے نکالنے لگ جاتے ہیں۔

اپنے مخالف کو چت کرنے کے لیے یہ ان کا آخری ہتھیار ہوتا ہے، انہوں نے مختلف مغربی ممالک کے خلاف چند اعداد و شمار رٹے ہوئے ہیں جنہیں وہ ہر بات میں بطور ’دلیل‘ استعمال کرتے ہیں۔

اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ ملک میں مذہبی تنگ نظری کیوں ہے تو وہ اس بات کا جواب دینے کی بجائے توپوں کو رخ کسی ایسے یورپی ملک کی طرف کر لیں گے جہاں ریپ کیسز زیادہ ہوتے ہیں، اور پھر اپنے مد مقابل کو ایسی نظروں سے دیکھیں گے جیسے کہہ رہے ہوں کہ ’کیوں کیسی رہی بچّو!‘

مذہبی رجحان رکھنےکے باوجود ط ظ صاحب کو ماڈرن نظر آنے کا شوق ہے، اسی لیے آپ نے داڑھی تو رکھی ہے مگر فیشنی، اسی طرح آپ کو پینٹ کوٹ پہننا بھی اچھا لگتا ہے اور کبھی کبھار تیراکی کے لیے جائیں تو ’سوئمنگ کاسٹیوم‘ کے نام پر ایسا زیر جامہ چڑھا کر جاتے ہیں کہ جس سے بمشکل ہی کلب میں داخلے کی اجازت ملتی ہے۔

لیکن دل کے اچھے ہیں، کھل کر صدقہ خیرات کرتے ہیں، طبیعت چونکہ نیکی کی طرف مائل ہے اس لیے کسی (بیوہ) کو دکھی نہیں دیکھ سکتے، دوسری شادی بھی ایک نوجوان بیوہ سے ہی کر رکھی ہے۔ نیکی کر دریا میں ڈال کے قائل ہیں اس لیے دوسری شادی کا رازآج تک کسی پر افشا نہیں کیا۔

میری نیاز مندی ان دونوں صاحبان سے ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ دونوں اکثر ناراض رہتے ہیں۔ اگر میں ع غ کے سامنے فلسطین کا مقدمہ پیش کروں تو موصوف پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ جاتے ہیں اور یہ دلیل تراش لاتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ مسلمان ناخوش اور غیر مطمئن ہیں اور اس کی وجہ وہ خود ہیں۔

اب میں لاکھ انہیں سمجھاؤں کہ قبلہ فلسطینیوں میں مسلمان ہی نہیں مسیحی بھی شامل ہیں اور ان کی مزاحمت مذہب کی بنیاد پر نہیں لیکن اس موقعے پر مسٹر ع غ کا دماغ بند ہو جاتا ہے اور وہ بالکل کسی تنگ نظر جنونی شخص کی طرح برتاؤ کرنے لگتے ہیں۔

دوسری طرف ط ظ کا حال بھی مختلف نہیں، اگر میں ان سے کبھی یہ بحث کروں کہ ملک میں مذہبی عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ملک کو سیکیولر ریاست بنایا جائے کیونکہ انڈیا میں مسلمان اقلیتیں اپنے تحفظ کے لیے سیکیولرازم میں ہی پناہ لیتی ہیں تو جوا ب میں وہ پھنکار کر کہتے ہیں کہ ’پھر تم انڈیا ہجرت کر جاؤ!‘

ظاہر ہے کہ اس مرحلے پر ط ظ سے گفتگو کرنا بھی ممکن نہیں رہتا۔

کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص یا تو ع غ ہے یا پھر ط ظ، اپنے اپنے تعصبات کا شکار اور اپنے اپنے نظریات پر جامد۔ سچ کوئی بھی نہیں سننا چاہتا۔

اب اس جملے کو ہی دیکھ لیں، اپنے تئیں میں سچ کا پرچارک ہوں اور ع غ اور ط ظ کو غلط سمجھتا ہوں، حالانکہ عین ممکن ہے کہ میں غلط ہوں اور ان دونوں میں سے کوئی درست لیکن پوسٹ ماڈرن ازم کے اس دور میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کیسے ہو؟

مجھ سے تو یہ فیصلہ نہیں ہوتا، سو اب آپ ہی دستار اتار کر فیصلہ کر دیں کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں دستاروں میں!‘

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ