مشرق وسطیٰ میں آثار قدیمہ کی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح ایک طویل عرصے سے فراموش کی گئی قدیم تہذیب نے کثیر الثقافتی اور سیاسی استحکام کو فروغ دینے کے لیے گمشدہ قدیم زبان کا استعمال کیا تھا۔
یہ اہم دریافت اس بات پر بھی نئی روشنی ڈال رہی ہے کہ ابتدائی سلطنتیں کیسے کام کرتی تھیں۔
ترکی میں ہیتی نامی سلطنت کے قدیم دارالحکومت کے کھنڈرات کی کھدائیوں سے اس بات کے قابل ذکر ثبوت ملے ہیں کہ شاہی حکومت کے تحت کام کرنے والے تمام شہری محکمے مکمل طور پر یا جزوی طور پر لوگوں کے مذاہب کی تحقیق کے لیے وقف تھے۔
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ دوسری صدی قبل مسیح میں ہیتی کے حکمرانوں نے اپنے سرکاری ملازمین سے کہا کہ وہ لوگوں کی مذہبی عبادات اور دیگر روایات کو اپنی متعلقہ مقامی زبانوں (ہیتی رسم الخط میں) لکھ کر ریکارڈ کریں تاکہ ان روایات کو سلطنت کے انتہائی جامع کثیر الثقافتی مذہبی نظام میں محفوظ اور شامل کیا جا سکے۔
قدیم زبانوں کے موجودہ ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ ہیتی کے سرکاری ملازمین نے کم از کم پانچ نسلی گروہوں کی مذہبی دستاویز کو محفوظ اور ریکارڈ کیا تھا۔
اس کی تازہ ترین مثال صرف دو ماہ قبل سامنے آئی۔ یہ دستاویز مشرق وسطیٰ کی ایک نامعلوم زبان میں تحریر تھی جو تین ہزار سال تک بھلائی جا چکی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کئی دہائیوں کے دوران جدید ترکی کے دارالحکومت انقرہ سے تقریباً 100 میل مشرق میں قدیم ہیتی دارالحکومت ہٹوسا (جو اب بوگازکوئے کے نام سے جانا جاتا ہے) کے کھنڈرات سے تقریباً 30 ہزار مکمل اور ٹوٹے ہوئے مٹی کی تختیوں پر مشتمل دستاویزات دریافت ہوئے۔
زیادہ تر دستاویز سلطنت کی مرکزی زبان ہتائت میں لکھی گئی تھی لیکن ہیتی حکومت کے کاتبوں نے ان میں سے تقریباً پانچ فیصد کو مکمل یا جزوی طور پر سلطنت کے اقلیتی نسلی گروہوں کی زبانوں میں بھی تحریر کیا جن میں لوئین (موجودہ جنوب مشرقی اناطولیہ)، پالیان (شمال مغربی اناطولیہ کے حصے)، ہٹیائی (مرکزی اناطولیہ) اور حورین (شام اور شمالی میسوپوٹیمیا) کے لوگ شامل تھے۔
حال ہی میں دریافت ہونے والی اقلیتی زبان، جسے شاہی حکومتوں کے کاتبوں کے ذریعے ریکارڈ کیا گیا ہے (جس کا اس سے پہلے جدید سکالرز کو علم نہیں تھا) کو ’کالاسمائک‘ نام دیا گیا ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ان افراد کا تعلق سلطنت کے شمال مغربی کنارے پر واقع کالاسما نامی علاقے سے تھا۔
اس دریافت سے پتہ چلتا ہے کہ سلطنت میں سب سے زیادہ غیر واضح زبانیں بھی تحریری شکل میں ریکارڈ کی گئیں جن کا مطالعہ کیا گیا اور انہیں محفوظ کیا گیا۔
اس کے نتیجے میں یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی دوسری چھوٹی چھوٹی زبانیں دریافت ہوں گی جنہیں ہیتی سلطنت نے مٹی کی تختیوں پر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
قدیم تحریروں کی دریافت اس مخصوص سلسلے کی کڑی ہے جس کے لیے آثار قدیمہ کے ماہرین اس وقت بوگازکوئے میں کھدائی کر رہے ہیں۔
سلطنت کے سول سروس کے کاتبوں نے تمام مخطوطات کو پہلے سے موجود میسوپوٹیمیا سے شروع ہونے والے رسم الخط (دنیا کا سب سے قدیم تحریری نظام) کے ہیٹائٹ ورژن میں لکھا جسے کیونیفارم کہا جاتا ہے جو ویجڈ شیپ لائنز پر مشتمل ہے اور انہیں حروف تہجی کی نمائندگی کرنے والے گروپوں میں ترتیب دیا گیا ہے۔
مشرق وسطیٰ کا یہ علاقہ جو اب موجودہ ترکی کا حصہ ہے، قدیم زمانے میں خاص طور پر زبانوں کے حوالے سے مالا مال تھا۔
لسانی تنوع کا انحصار اکثر جغرافیے پر ہوتا ہے۔ جتنے زیادہ پہاڑ اور الگ تھلگ وادیوں والی تہذیبیں ہوں گی اتنی ہی زیادہ زبانوں کے نشوونما اور زندہ رہنے کے امکانات ہوتے ہیں۔
کانسی کے زمانے کی فی الحال صرف پانچ اقلیتی زبانیں کا تعلق ہیتی سلطنت سے ملتا ہے لیکن حقیقت میں پہاڑی جغرافیے کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ئی کم از کم 30 ہو سکتی ہیں۔
درحقیقت قدیم ہیتی سلطنت کے بالکل قریب قفقاز کا پہاڑی علاقہ تھا جو آج بھی اپنی تقریباً 40 قدیم زبانوں پر فخر کرتا ہے۔
ہیتی زبان دنیا کی سب سے قدیم تصدیق شدہ انڈو یورپین زبان ہے۔
ابتدائی نوشتہ جات 16ویں صدی قبل مسیح کے ہیں۔ ایک انڈو یورپین زبان کے طور پر اس کا تعلق زیادہ تر جدید یورپی زبانوں (بشمول انگریزی) کے ساتھ ساتھ بہت سی ایشیائی زبانوں (بشمول ایرانی اور بہت سی قدیم ہندوستانی زبانوں) سے ہے۔
درحقیقت تین ہزار سال کے وقفے کے باوجود قدیم ہیتی اور جدید انگریزی میں درجنوں الفاظ مشترک ہیں۔
مثال کے طور پر پانی کے لیے انگریزی کی طرح ہیتی میں اسے ’واٹار‘ (watar) کہا جاتا تھا اور بیٹی کے لیے ’ڈاٹار‘ (Duttar) اور وائن کے لیے وایانا (wiyana)، دل (کارڈک) کے لیے کارڈ اور نیو کے لیے ’نیوا‘ (newa) کہا جاتا تھا۔
بوگازکوئے میں قدیم تحریروں کی دریافت سے لسانیات کے ماہرین کو قدیم کانسی کے دور کی انڈو یورپین زبانوں کے ارتقا کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی جس سے انگریزی کا بھی دور کا تعلق ہے۔
موجودہ کھدائیوں کی قیادے استنبول میں جرمن آرکیالوجیکل انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر اینڈریاس شیچنر کر رہے ہیں جب کہ ورزبرگ اور استنبول یونیورسٹیوں کے ماہر لسانیات مٹی کی تختیوں پر تحریروں کے مطالعے میں حصہ لے رہے ہیں۔
کیونیفارم سکرپٹ کے ماہر اور نئے دریافت شدہ متن کی تحقیقات کی قیادت کرنے والے ورزبرگ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈینیئل شویمر نے کہا کہ ’پیتل کے زمانے کی مشرق وسطی کی تاریخ کو صرف جزوی طور پر سمجھا جاتا ہے اور مٹی کی تختیوں کے اضافی دستاویزات کی دریافت سے سکالرز کو اس علم میں خاطر خواہ اضافہ کرنے میں مدد مل رہی ہے۔‘
بوگازکوئے کی کھدائیوں سے فی الحال ہر سال 30 سے 40 نئی کینیفارم تختیاں یا تختیوں کے ٹکڑے مل رہے ہیں۔
بوگازکوئے (قدیم ہٹوسا) خاص طور پر اہم ہے کیونکہ ہیتی سلطنت جو تقریباً 1650 قبل مسیح سے 1200 قبل مسیح تک قائم رہی، کے مرکز کے طور یہ دنیا کے پہلے نصف درجن بڑے سامراجی سیاسی تہذیبوں میں سے ایک کا دارالحکومت تھا۔
یہ سول سروسز کی جانب سے اہم دستاویز تیار کرنے والی دنیا کی پہلی تہذیبوں میں سے بھی ایک ہے۔
ہیتی سلطنت مغرب میں بحیرہ ايجه سے لے کر موجودہ شمالی عراق اور شمال میں بحیرہ اسود سے لے کر جنوب میں لبنان تک پھیلی ہوئی تھی۔
اس تہذیب نے بنیادی طور پر انسانی تاریخ کو تبدیل کر دیا تھا کیونکہ اس کی تکنیکی اختراعات (خاص طور پر لوہے کی ایجاد، جدید ترین انتہائی ہلکے جنگی گھوڑا گاڑیوں کی ترقی اور سول سروس متعارف کرانے جیسے اقدامات) نے جنگ اور حکومت کی توسیع اور اس وقت کی طویل ترین سلطنتوں کے قیام میں مدد کی۔
بوگازکوئے میں جاری آثار قدیمہ کی تحقیق اس بات پر قابل ذکر نئی روشنی ڈال رہی ہے کہ کس طرح ہیتی تہذیب میں نظام کام کرتا تھا اور کس طرح اس نے انسانی تاریخ کو تبدیل کرنے میں مدد کی۔
© The Independent