کیا شان مسعود میرٹ پر کپتان بنے ہیں؟

شاید ذکا اشرف اس بات کا جواب دیں کہ جوان خون لانا ہے۔ تو کیا جوان خون صرف کپتان کے لیے ہے اور بورڈ کا چیئرمین کوئی جوان خون کیوں نہیں بن سکتا؟

17 ستمبر، 2022 کی اس تصویر میں پاکستانی ٹیم کے نو منتخب کپتان شان مسعود کراچی میں ہونے والی پریس کانفرنس کے دوران(اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد تبدیلیوں کا اشارہ تو چند روز قبل ہی دیا تھا لیکن میڈیا پر پاکستان کے سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور تبصرہ نگار ورلڈ کپ سے قبل ہی تبدیلیوں کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 

تاہم ایشیا کپ میں انڈیا اور سری لنکا سے شکستوں نے کپتان بابر اعظم کے محاسبے کا مطالبہ کر ہی دیا تھا۔

پی سی بی جو خود عارضی بنیادوں پر کام کر رہا ہے اور گذ‍‍‍‍شتہ 11 مہینے سے غیر دستوری انتظامیہ سے بالاتر ہو کر فیصلے کر رہی ہے۔ اس نے خود کو مطلق العنان سمجھنا شروع کر دیا ہے۔

نجم سیٹھی کو دسمبر کے آخری ایام میں جب مینیجمنٹ کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا تو ان کی پہلی اور آخری ذمہ داری الیکشن کرا کے ایک گورننگ بورڈ تشکیل دینا تھا۔

جہاں دیدہ نجم سیٹھی نے الیکشن کے سوا تمام امور بحسن و خوبی انجام دیے جس سے بورڈ کی فعالیت تو قائم رہی لیکن وہ حکومتی اتحاد کی سیاست سے نہ بچ سکے اور ان کی جگہ سابق چیئرمین چوہدری ذکا اشرف کمیٹی کے چیئرمین بن گئے جنہوں نے کمیٹی کے ارکان بھی بدل دیے۔

ذکا اشرف جتنا زیادہ شکر کے کاروبار کو جانتے ہیں اتنا ہی کم کرکٹ کو اور  کرکٹ کے معاملات کو۔ 

ان کی غیر ضروری میٹنگز، دورے اور بیانات نے کپتان بابر اعظم سمیت ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ تعلقات سرد کر دیے اور تلخی کی حد یہ ہوگئی کہ چیئرمین اور کپتان کے درمیان بات چیت بند ہوگئی۔

جب کپتان نے چئیرمین کو فون کیا تو انہوں نے بات نہیں کی۔  

جب یہ خبر عام ہوئی تو بورڈ کو نزاکت کا احساس ہوگیا۔

پی سی بی کے ذرائع نے بابر اعظم کے واٹس ایپ پیغامات عام کر دیے تاکہ باور کرایا جاسکے کہ بابر نے کوئی فون نہیں کیا۔  

اس واٹس ایپ پیغام نے ایک نئے تنازع کو جنم دیا جس سے کشیدگی مزید بڑھ گئی۔

بابر اعظم دنیا کے صف اول کے بلے باز ہیں اور ان کے اعدادوشمار انہیں پانچ بہترین بلے بازوں میں شمار کرتے ہیں۔

لیکن ان کی کارکردگی میں ورلڈکپ میں تنزلی آئی اور کپتانی بھی زیادہ اچھی نہیں رہی۔  

پاکستان ان کی کپتانی میں سیمی فائنل تک نہ پہنچ سکا جبکہ افغانستان سے شکست ہوگئی، جس نے ان کی کپتانی کو داغدار کر دیا۔ 

رہی سہی کسر دوستوں کو نوازنے کے الزامات نے پوری کر دی۔  اور جو کل تک ’کنگ بابر‘ کے نعرے لگاتے تھے آج سر پر تلوار لے کر کھڑے ہوگئے۔

بابر اعظم نے اتنی بری کپتانی نہیں کی جتنی پی سی بی کو انہیں ہٹانے کی جلدی تھی۔

وجہ کیا ہو سکتی ہے؟

ایک عام تاثر ہے کہ ورلڈکپ کی خراب کارکردگی نے بابر اعظم کو کپتانی چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ اور بورڈ کسی نئے کپتان کو آزمانا چاہتا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 

بابر اعظم کی کپتانی اگر باقی رہتی تو ان کا اگلا ہدف آسٹریلیا کا دورہ ہوتا جہاں قومی ٹیم تین ٹیسٹ میچ کھیلے گی اور اس کے بعد اتنے ہی ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنے نیوزی لینڈ جائے گی۔

اگر ٹیسٹ میچ کی کپتانی دیکھی جائے تو بابر نے آخری بار سری لنکا میں دو ٹیسٹ میچ میں کپتانی کی اور یک طرفہ طور پر جیتے، لیکن ان کی ٹیسٹ کپتانی کو ایک روزہ میچوں کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر ختم کردی گئی۔

وہ ٹیسٹ میچ میں فی الحال کامیاب کپتان تھے۔

اصل وجہ بورڈ کے ساتھ سینٹرل کنٹریکٹ اور معاوضہ پر تنازع ہے۔

تنازع ورلڈ کپ سے قبل شروع ہوا جب کھلاڑیوں نے بھاری معاوضہ نہ ملنے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ اور ورلڈ کپ میں جانے سے انکار کر دیا۔

بورڈ اس فیصلے سے ہل گیا کیونکہ بورڈ پہلے ہی تنقید کی زد میں تھا اور نیا بحران مزید تنقید کی زد میں لے آتا۔ 

ذرائع کا کہنا ہے کہ بابر اور دوسرے سینئیر کھلاڑیوں کو دستخط نہ کرنے کا مشورہ دو سابق کپتان اور ایک سابق آل راؤنڈر دے رہے تھے۔ 

صورت حال کی سنگینی دیکھتے ہوئے چیف سیلیکٹر انضمام الحق میدان میں آ گئے اور اپنی ضمانت پر ٹیم کو انڈیا بھیجا تاہم کھلاڑی خوش نہ تھے۔ دوسری طرف ایک سابق چیئرمین بھی انڈیا میں مشورے دیتے رہے۔ 

بابر اعظم مطمئن تھے کہ اگر بورڈ نے بات نہ مانی تو وہ ٹیم چھوڑ دیں گے اور پورا پاکستان ان کے ساتھ کھڑا ہوجائے گا۔ لیکن بورڈ نے ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے دو ٹی وی چینلز پر بابر کے خلاف مہم شروع کرا دی۔ 

چند صحافیوں نے من پسند افراد کو لانے کے لیے بابر پر سخت تنقید شروع کر دی۔

بابر کی قسمت خراب رہی کہ وہ خود بھی اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے اور نہ ٹیم۔  

جس نے بورڈ کا موقف مضبوط کر دیا۔ بورڈ نے شکست کی ساری ذمہ داری بابر پر ڈال کر ان کو بند گلی میں کھڑا کر دیا۔

دو ٹی وی چینلز تو بابر کے خلاف ایجنڈا ایک سابق کپتان کو لانے کے لیے کر رہے تھے لیکن دراصل  وہ بابر اور دوسرے کھلاڑیوں سےانٹرویو نہ ملنے پر جزبز تھے جو کہ ان کے چینلز کا اسائنمنٹ تھا اور پورا نہ ہو سکا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کنٹریکٹ پر دستخط نہ کرنے کے مشورہ دینے والے بابر اعظم کے ہٹتے ہی بورڈ میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوگئے اور بابر رخصت ہو گئے۔

کپتان کی تبدیلی

بورڈ نے ورلڈ کپ میں پاکستان کی پانچویں پوزیشن کو من پسند چینلز کے ذریعے اتنا اچھالا کہ شائقین کرکٹ بھی نئے کپتان کی بات کرنے لگے۔ 

بورڈ اس کے لیے تیار تھا۔  لیکن ڈائریکٹر کرکٹ اور ہیڈ کوچ کی رپورٹ کے بغیر ممکن نہ تھا جس کا علاج ڈھونڈا گیا کہ بابر فارغ کردیا جائے۔ 

چیئرمین پی سی بی نے مخصوص سابق ٹیسٹ کرکٹرز کو اعتماد میں لے کر کوچنگ سٹاف کو سبکدوش کرنے کے فیصلے پر مہر لگا دی۔  

چیئرمین جنہیں نئی توسیع میں پابند کیا گیا ہے کہ روزمرہ کے امور کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے، انہوں نے سب سے بڑا فیصلہ لے لیا اور بابر کو مجبور کر دیا کہ وہ باعزت طریقے سے مستعفی ہوجائیں۔

بابر اعظم آسٹریلیا کے مشکل دورے کو دیکھتے ہوئے کپتانی سے سبکدوش ہوگئے۔

کیا شان مسعود اہل کپتان ہیں؟

پی سی بی اگر زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کپتان بناتا تو سرفراز احمد سب سے اہل اور قابل ترین ہیں، لیکن سرفراز کے گروپ کو توڑنے کے لیے جو الیکٹرونک میڈیا پر بہت سرگرم ہے، انہیں کپتانی کے لیے نظر انداز کیا گیا حالانکہ حال ہی میں کراچی نے سرفراز کی کپتانی میں قائد اعظم ٹرافی جیتی ہے۔ 

وہ نیوزی لینڈ کے خلاف آخری ٹیسٹ میں سنچری بنا چکے ہیں۔ مگر ان کی جگہ ایک ایسےکھلاڑی شان مسعود کو کپتان مقرر کیا گیا جن کی ٹیسٹ کارکردگی بہت ہی خراب ہے۔ 

شان مسعود کی ایک بلے باز کے لحاظ سے کارکردگی کسی آل راؤنڈر سے ملتی جلتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے 30 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں چار سنچریوں کی مدد سے 28.51 کی اوسط سے 1597 رنز بنائے ہیں، جو ان کی ٹیسٹ میچوں میں ناکامی کی داستان سنا رہے ہیں۔

اگر ان کی کپتانی پر بات کی جائے تو وہ انگلش کاؤنٹی کرکٹ میں گذشتہ سیزن میں دوسرے درجے کی ڈویژن یارکشائر کی کپتانی کر رہے تھے۔ جہاں کاؤنٹی صرف دو میچ جیت سکی جبکہ تین ہار گئی اور آٹھ ڈرا ہوئے۔

کاؤنٹی پوائنٹس ٹیبل پر ساتویں نمبر پر رہی۔

وہ قائد اعظم ٹرافی اور پاکستان کپ میں سرفراز احمد کی غیر حاضری میں کپتانی کرتے رہے ہیں۔

ان کی ایک روزہ میچوں میں بھی اوسط درجے کی کارکردگی ہے۔ نو میچ کھیل کر محض 163 رنز بنا سکے ہیں۔  اسی کارکردگی پرانہیں ورلڈ کپ کی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔

شان مسعود ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور متمول گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے خاندان کے بیشتر افراد اعلیٰ بیوروکریٹس رہے ہیں۔ شاید ان کا یہ بیک گراؤنڈ انہیں اوسط کارکردگی کے باوجود منتخب کرا دیتا ہے۔

شان مسعود کو قومی ٹیم میں لانے کے لیے اوپنر سے ون ڈاؤن بنایا گیا کیونکہ موجودہ اوپنرز عبداللہ شفیق اور امام الحق تسلسل سےرنز بنا رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے جتنے مواقع شان مسعود کو ملے کسی اور کو نہیں ملتے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ سرفراز احمد جیسے قابل اور قائدانہ صلاحیتیں رکھنے والے کھلاڑی کی موجودگی میں شان مسعود کو کپتان کیوں بنایا گیا۔ 

شاید ذکا اشرف اس کا جواب دیں کہ جوان خون لانا ہے۔ تو کیا جوان خون صرف کپتان کے لیے ہے۔ اور بورڈ کا چیئرمین کوئی جوان خون کیوں نہیں بن سکتا؟

شان مسعود ایک محنتی اور باصلاحیت کھلاڑی ہیں لیکن آسٹریلیا کے دورے میں ان کی کپتانی ایک بہت مشکل امر ہوگی۔

وہ ماڈرن کرکٹ کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں اور ابتدا سے جارحانہ انداز اپناتے ہیں لیکن کیا بابر اعظم جیسے عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی کی جگہ وہ تسلی بخش کپتانی کرسکیں گے؟ جبکہ بابر اعظم کے لیے  تمام عالمی کرکٹ مبصرین کا اتفاق ہے کہ وہ جتنے باصلاحیت بلے باز ہیں اس لحاظ سے بہت زیادہ کرکٹ ابھی ان کی دیکھنی ہے۔

ایسے میں شان مسعود پر کپتانی کے ساتھ اپنی بیٹنگ کا بھی بہت بوجھ ہوگا۔  کیونکہ بحیثیت بلے باز ان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ