پاکستان کے سٹار بلے باز اور کپتان بابر اعظم اپنے کرکٹ کے ابتدائی دنوں میں قذافی سٹیڈیم میں کھیلے گئے میچوں میں بطور ’بال بوائے‘ کام کرتے رہے ہیں۔
میچ کے دوران جب گیند باؤنڈری لائن سے باہر جاتی ہے تو پہلے سے موجود بچے گیند واپس میدان میں پھینک دیتے ہیں، ان بچوں کو بال بوائے کہا جاتا ہے۔
بابر کا ایک عام بال بوائے سے کرکٹ کے نمبر ون بلے باز بننے کا سفر آج کے نوجوانوں کے لیے کافی حوصلہ افزا ہے۔
لاہور کرکٹ کلب گراؤنڈ میں شعیب اختر کی کرکٹ اکیڈمی چلانے والے تاج محمد کے مطابق انہوں نے 2007 میں بابر اعظم کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلی اور انہیں بطور بال بوائے قذافی سٹیڈیم میں کام کرتے بھی دیکھا۔
انہوں نے بتایا کہ بابر شروع سے ہی بہت محنتی تھے، وہ اپنے والد کے ساتھ کرکٹ اکیڈمی آتے اور بہت دلچسپی سے کرکٹ سیکھتے، میچز میں اکثر ان کی سینچری ہوتی۔
’ہمیں پہلے ہی اندازہ تھا کہ جس طرح ان کے والد ان پر توجہ دیتے ہیں اور وہ خود محنت سے، لگن کے ساتھ بلے بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں، ایک دن بڑے کھلاڑی ضرور بنیں گے۔‘
کلب میں پریکٹس کرنے والے عزیز الرحمٰن نے کہا کہ ’جس طرح بابر بھائی نے بطور بال بوائے اپنے کیریئر کا آغاز کیا، میں بھی اکیڈمی کے ساتھ قذافی سٹیڈیم میں بال بوائے کے طور پر کام کرتا ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’یہ کلب بھی وہی ہے جہاں بابر اعظم کھیلتے رہے۔ اب بھی وہ آتے رہتے ہیں اور ہم سب کو سکھاتے ہیں۔ وہ بہت عاجز اور خوش اخلاق ہیں۔ ہم ان سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ہم بھی ایک دن ان کی طرح بڑے کھلاڑی بنیں گے۔‘
ایک اور نوجوان کھلاڑی رافع قمر الزمان نے کہا کہ ’جس طرح بابر اعظم نے بال بوائے اور پچ پر رول کرنے میں عار محسوس نہیں کی، ہم بھی انہی کی طرح ہر کام شوق سے کرتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’وکٹ کی تیاری ہو یا قذافی سٹیڈیم میں بال بوائے کے طور پر کام کرنا، کبھی شرم محسوس نہیں کی کیونکہ بابر اعظم بھی یہ سب کرتے رہے ہیں۔‘
رافع کے مطابق وہ کینیڈا میں بھی کھیلتے رہے ہیں اور اب لاہور میں اسی کلب میں تربیت لے رہے ہیں جہاں بابر اعظم کھیل چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: ’بال بوائے سے لے کر وکٹ کی تیاری تک، یہ سب کرنے سے ہی کھلاڑی بنیادی چیزیں سیکھ سکتا ہے۔‘