پاکستان کے کرکٹ کپتان بابر اعظم نے ون ڈے ورلڈ کپ میں ٹیم کی خراب پرفارمنس کے بعد نقادوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ٹی وی پر مشورہ دینا آسان ہوتا ہے۔‘
پاکستان کو بہتر رن ریٹ رکھنے والی نیوزی لینڈ کی جگہ میگا ایونٹ کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے ہفتے کو انگلینڈ کو کم از کم 287 رنز سے ہرانا ہو گا۔
اس مشکل ہدف کو پانے میں ناکامی کی صورت میں تین سال سے کپتانی کرنے والے بابر کو مزید سوالات کا سامنا ہو گا۔
تاہم 29 سالہ بابر کا اصرار ہے کہ وہ دباؤ کا شکار نہیں۔ ’مجھے جس طرح ورلڈ کپ میں پرفارم کرنا چاہیے تھا نہیں کر سکا، اسی وجہ سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں دباؤ میں ہوں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہر ایک کا اپنا نقطہ نظر ہے، چیزیں دیکھنے کا اپنا انداز ہے۔ سبھی مختلف باتیں کر رہے ہیں کہ اسے ایسا ہونا چاہیے، ویسا ہونا چاہیے۔
’اگر کسی نے مجھے مشورہ دینا ہے تو سبھی کے پاس میرا نمبر ہے۔ ٹی وی پر مشورہ دینا آسان ہے، اگر کسی نے مجھے مشورہ دینا ہے تو وہ مجھے میسج کر سکتا ہے۔‘
بابر نے انڈیا میں جاری ورلڈ کپ میں اب تک آٹھ میچوں میں 40 کی اوسط سے 282 رنز سکور کیے ہیں، جس میں چار نصف سینچریاں بھی شامل ہیں۔
تاہم بطور کپتان انہیں آٹھ میں سے چار میچوں میں شکست دیکھنا پڑی، جس میں افغانستان سے چونکا دینے والی ہار بھی شامل ہے۔
پاکستان کو ایونٹ میں اس وقت زندگی ملی جب اوپنر فخر زمان نے نیوزی لینڈ کے 6-401 کے جواب میں دھواں دار 81 گیندوں پر 126 ناٹ آؤٹ کی اننگز کھیلی اور بارش سے متاثرہ یہ میچ پاکستان کے نام رہا۔
بابر پرامید ہیں کہ وہ انگلینڈ کو ہرا دیں گے۔’ایسا نہیں کہ یہ معاملہ ہمارے ذہن میں نہیں، یہ ہمارے ذہن میں ہے اور ہم اسے کرنے کی کوشش کریں گے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایسا نہیں کر سکتے کہ میدان میں جائیں اور اندھا دھند شروع ہو جائیں۔ ہم یقیناً یہ ہدف چاہتے ہیں لیکن مناسب منصوبہ بندی کے ساتھ کہ کیسے پہلے 10 اوور کھیلنا ہیں، پھر اگلے 20 اوور اور ہدف کیسے حاصل کرنا ہے۔
’اس میں بہت سی چیزیں ہیں جیسا کہ شراکت داریاں، کس پلیئر نے پچ پر کتنا ٹھرنا ہے۔ اگر فخر 20 سے 30 اوور تک ٹھر گئے تو ہم حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم ایسا کر سکتے ہیں، ہم نے اس کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔‘
پاکستان نے کبھی انگلینڈ کے خلاف 361 رنز سے زیادہ نہیں بنائے۔ اس کی انگلینڈ کے خلاف سب سے بڑی فتح 22 سال قبل 108 رنز سے تھی۔
1992 کے چیمپیئن پاکستان نے ورلڈ کپ کا آغاز ہالینڈ اور سری لنکا کے خلاف جیت کے ساتھ کیا لیکن پھر اسے انڈیا اور آسٹریلیا کے ہاتھوں لگاتار شکستوں کا سامنا کرنا پڑا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان اور پروٹیز کے ہاتھوں شکست کے بعد بنگلہ دیش اور نیوزی لینڈ کے خلاف فتح نے سیمی فائنل کی امیدوں کو بحال کر دیا۔
بابر نے چنئی میں جنوبی افریقہ کے خلاف شکست کو ایک بڑا دھچکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں افغانستان کا میچ بھی جیتنا چاہیے تھا اور ان شکستوں کی وجہ سے وہ اس مرحلے پر پہنچے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میرا مقصد میچ ختم کرنا اور انہیں اپنی کارکردگی سے جیتنا تھا۔ مجھ سے توقعات تھیں اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے وہ نہیں کیا جس کی مجھ سے توقع کی جا رہی تھی۔‘
ہفتے کو ایونٹ سے ممکنہ طور پر باہر ہونے کے باوجود اعظم نے کہا کہ پاکستان کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہم 1999 کے بعد سے تمام ورلڈ کپ ہار چکے ہیں؟ اعظم نے پوچھا۔
’اگر آپ ٹی 20 ورلڈ کپ پر نظر ڈالیں تو ہم ایشیا کپ (2022 کے فائنل) میں تھے، ہم آسٹریلیا (ٹی 20 ورلڈ کپ 2022) کے فائنل میں کھیلے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں کہ ہم ورلڈ کپ میں اچھا نہیں کھیل رہے، ہم اچھا اختتام نہیں کر پا رہے۔
’آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے 1999 کے بعد سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا، ہم نے غلبہ حاصل کیا ہے اور ہم نمبر ایک تھے۔‘