پاکستان میں کراچی کا ایک غریب فالودہ بیچنے والا اور رکشہ چلانے والا ان انتہائی عارضی خوش نصیبوں میں شامل تھے جن کے بینک کھاتوں میں اچانک اربوں روپے آئے اور چلے گئے۔ قابلِ حیرت ہے کہ کسی کو نہ معلوم ہو سکا کہ اتنا پیسہ آیا کہاں سے تھا اور گیا کہاں۔
ملزمان کون ہیں؟
اس پرسپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی تشویش ہوئی کہ آخر ماجرہ کیا ہے؟ حقوق انسانی کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ نے آئین کے آرٹیکل 184 کی شق (3) کے تحت ازخود نوٹس لیا اور اسے فیک یا جعلی بینک اکاونٹس کیس قرار دیا۔ اس میں تین بینکوں کے نام آئے جن میں سمٹ بینک، سندھ بینک اور یونائٹڈ بینک شامل ہیں۔ رقوم کی آمدورفت جس گروپ سے مبینہ طور پرسب سے زیادہ ہوئی وہ اومنی گروپ تھا۔ یہ کئی نجی کمپنیوں کا اتحاد ہے جسے مجید خاندان بالواسطہ یا بلا واسطہ چلاتا ہے۔ گروپ کے مالک انور مجید صحت کی خرابی کے باعث ہسپتال میں زیر حراست رہے جبکہ ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں رکھا گیا۔ عدالت نے وزارتِ داخلہ کو بارہ جولائی 2018 کو حکم دیا کہ وہ لوگ جن پر جعلی کھاتوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے، کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی عائد کی جائے یعنی ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جائیں۔ ان میں اومنی گروپ کے انور مجید، عبدالغنی مجید، علی کمال مجید، مصطفی ذوالقرنین مجید اور نمار مجید شامل ہیں۔ لیکن اصل سیاسی تنازعہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو ذرداری کے نام ای سی ایل میں ڈالنے سے پیدا ہوا۔ عدالت نے دونوں کے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا۔
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور پر بھی اس غیرقانونی آمدورفت میں ملوث ہونے کا الزام تھا لہٰذا انہیں بھی تفتیش کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے، ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کا کہا گیا۔
مزید تحقیقات سے اومنی گروپ کے علاوہ شوگر ملیں، بحریہ ٹاؤن، زرداری گروپ، عارف حبیب لیمٹڈ، نصرعبداللہ لوتھا، ایچ اینڈ ایچ ایکسچینج کمپنی، پارتھینن پرائیوٹ لیمٹڈ، ڈریم ٹریڈنگ اینڈ کمپنی اور اوشین انٹرپرائز جیسی کئی کمپنیوں کے نام سامنے آئے۔
کتنی رقم کا گھپلہ؟
ابتدائی سرکاری تحقیقات کے مطابق انتیس بینک کھاتے مشتبہ یا جعلی پائے گئے جن میں 35 ارب روپے سے زائد کی نقل و حرکت ہوئی۔ عدالت عظمیٰ کو شک تھا کہ پیسے کا آنا جانا کہیں منی لانڈرنگ یا دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کا حصہ نہ ہوں۔ عدالت نے اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی ذمہ داری ایف آئی اے کو سونپی۔ اصل کھاتے داروں نے رقوم کی ملکیت سے انکار کیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کے قومی شناختی کارڈز کا غلط استعمال کیا گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا تھا؟
سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاوٹنس کیس کا تفصیلی تحریری فیصلہ سولہ جنوری 2019 کو جاری کیا۔ بچیس صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس اعجاز الحسن نے تحریر کیا۔ عدالت نے اس کیس کی تحقیقات کے لیے قائم جے آئی ٹی کو نیب کی مزید تفتیش میں معاونت کا حکم دیا۔ جے آئی ٹی کو نامکمل معاملات کی تحقیقات جاری رکھنے، تحقیقات میں جرم بنتا ہو تو اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے، مستند اور تجربہ کار افسران پر مشتمل ٹیم ریفرنسز کی پراسیکیوشن کے لیے تشکیل دیئے جانے اور نیب کو پندہ روزہ تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے جیسے احکامات دیئے۔