خیبرپختونخوا: معدنی وسائل کا مجوزہ قانون تنقید کی زد میں کیوں؟

صوبے میں حزب اختلاف کی جماعتوں کا اعتراض ہے کہ اس سے صوبائی معدنیات کے وسائل کو وفاق کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ 

آٹھ فروری 2025 کی اس تصویر میں خیبر پختونخوا میں اٹک پل کے پاس مشینوں سے سونے کے ذرات کو ڈھونڈنے کی کوشش کی جا رہی ہے (اے ایف پی/ عبدالمجید)

صوبہ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی حکومت نے معدنی وسائل کے حوالے سے ایک نیا مجوزہ قانون اسمبلی میں پیش کیا ہے جس پر حزب اختلاف کی جماعتوں کا اعتراض ہے کہ اس سے صوبائی معدنیات کے وسائل کو وفاق کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ 

یہ بل چار اپریل کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے لیکن ابھی تک منظور نہیں ہوا ہے جس میں زیادہ تر شقیں تو معدنیات ایکٹ 2017 کی ہی ہیں لیکن کچھ شقیں اس میں نئی بھی شامل کی گئی ہیں۔

لیکن یہ ترمیمی نہیں بلکہ بالکل نئے بل کے طور پر اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔ 

اس بل کے ابتدا میں یہ لکھا گیا ہے کہ اس نئے قانون کا اطلاق ضم شدہ اضلاع پر 31 دسمبر 2030 تک نہیں ہو گا یعنی یہ قانون 2030 تک ضم شدہ اضلاع میں نافذ العمل نہیں ہو گا۔

اس بل کے پیش ہونے پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ صوبائی حکومت صوبائی وسائل کو وفاقی حکومت کے حوالے کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ 

انڈپینڈنٹ اردو نے کوشش کی ہے اس نئے بل اور 2017 کے صوبائی معدنیات ایکٹ کا تقابلی جائزہ لے کہ نئے بل میں کیا تبدیلی کی گئی ہے۔ 

لائسنس اجرا طریقہ کار میم تبدیلی

خیبر پختونخوا میں 2017 کے معدنیات ایکٹ کے تحت کسی بھی معدنیات کے ٹھیکے کا لائسنس محکمہ معدنیات میں لائسسنگ ڈائریکٹریٹ جاری کرتا تھا اور اس میں معدنیات سے متعلق تمام بڑے و چھوٹے منصوبے شامل تھے۔ 

تاہم نئے مجوزہ قانون میں بڑے اور چھوٹے منصوبوں کے لائسسنگ کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا ہے اور اب بڑے منصوبوں کے ٹھیکے دینے کے لیے لائسسنگ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ 

مجوزہ بل کی شق نمبر پانچ کے مطابق اس اتھارٹی کے پاس ‘بڑے مائننگ’ کے منصوبوں کی ٹھیکے یا لیز دینے کا اختیار ہو گا اور کا فیصلہ اتھارٹی کی میٹنگ میں دو تہائی اکثریت پر کیا جائے گا۔

اس اتھارٹی کے اراکین میں محکمہ معدنیات کے ڈائریکٹر جنرل، ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل، چیف انسپکٹر مائنز،  چیف کمشنر مائنز لیبر ویلفیئر، محکمہ جنگلات کا نمائندہ، وزارت قانون کا نمائندہ، محکمہ ماحولیات کا نمائندہ، ڈائریکٹر ایکسپلوریشن، جی آئی ایس افیسر، اور ڈائریکٹر لائسسنگ شامل ہوں گی۔ 

اس اتھارٹی کے پاس یہ اختیار بھی ہوگا کہ وہ صوبے میں کسی بھی جگہ میں معدنیات کی نشاندہی، اس کی قیمت لگانے اور اس کو نیلامی کے لیے پیش کر سکے۔ 

اتھارٹی کے پاس مجوزہ بل میں یہ بھی اختیار دیا گیا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کی محکمہ فیڈرل مینرل ونگ کی تجاویز پر عمل درآمد کو یقینی بنائے، تاہم اس شق میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ کس قسم کی تجاویز پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔

اب یہ اتھارٹی بڑے منصوبوں کی لیز دینے کے لیے با اختیار ہو  گی تاہم مجوزہ قانون میں ایک نئی اتھارٹی کے قیام کا بھی بتایا گیا جسے ’مائنر منرلز لائسسنگ اتھارٹی‘ کہا جائے گا اور یہ اتھارٹی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے پاس ہو گی اور محکمہ معدنیات کا تجربہ کار مائننگ انجینئر یا جیالوجسٹ اپنے ساتھ بطور رکن لے سکے گا۔

یہ اتھارٹی صوبے میں معدنیات کے چھوٹے منصوبوں کی لیز اور ٹھیکے دے گی، نیلامی اور معدنیات کی جگہ کا تعین کریں گی۔ 

مجوزہ قانون کے تحت ایک ایسا نظام بھی بنایا جائے گا جس میں تمام تر لائسسنگ، نیلامی و ادایئگوں کی تفصیل، درخواستوں کی وصولی، اور دیگر معلومات فرائم کی جائیں گی۔ 

مائننگ کیڈسٹر نظام اس بات کا بھی پابند ہو گا کہ وہ وفاقی حکومت کے فیڈرل مائننگ ونگ سے ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اس نظام کے تحت ایک رجسٹر مرتب کریں گے۔

اس رجسٹر میں لیز دینے، لیز کی تجدید، لیز ٹرانسفر اور صوبہ بھر میں لیز ہولڈرز کے تمام تر معلومات موجود ہوں گے۔ 

ڈسٹرکٹ مائننگ لیزان کمیٹی کا قیام

یہ کمیٹی 2017 کے معدنیات ایکٹ کے تحت بھی بنائی گئی تھی اور اب نئے مجوزہ بل میں دوبارہ اس کے بنانے کا ذکر ہے جو معدنیات کے زمین اور اس سے جڑے مسائل حل کریں۔ 

اس کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی لیز میں کام کرنے کے دوران حائل رکاوٹوں کو دور کریں اور مالک جائداد اور لیز ہولڈر کے مابین تنازعات حل کریں۔ 

منرل انوسٹمنٹ فیسیلیٹیشن اتھارٹی کا قیام 

نئے مجوزہ قانون میں بل کے مطابق صوبے میں معدنیات سیکٹر کی ترقی کے لیے منرل انوسٹمنٹ فیسیلیٹیشن اتھارٹی قائم کی جائے گی جو تمام صوبوں کے معدنیات کے حوالے سے معاملات اور اس سیکٹر کی ترقی میں کردار ادا کرے گی۔ 

اس اتھارٹی کو خود یا وفاقی حکومت کی تجاویز  کے مطابق لیز اگریمنٹ میں تبدیلی، فیس رینٹ اور رائلٹیز میں تبدیلی، نیلامی کے دوران سکیورٹی ڈیپازٹ میں تبدیلی، معدنیات سیکٹر میں سامان بیرون ممالک سے درآمد کرنے پر ٹیکس میں رعایت اور صوبائی لائسسنگ اتھارٹی کے طریقہ کاریں تبدیلی کا اختیار ہوگا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کمیٹی کے اراکین میں صوبائی وزیر معدنیات، وزیر ماحولیات، وزیر قانون، وزیر صنعت، معدنیات سیکرٹری، سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری ماحولیات، سیکرٹری قانون، سیکرٹری صنعت، ڈائریکٹر جنرل ریوینیو اتھارٹی، ڈائریکٹر جنرل فیڈرل مائننگ ونگ، مائن مالکان کا نمائندہ اور ڈائریکٹر مائننگ ڈایریکٹریٹ شامل ہوں گے۔ 

معدنیات کی اونرشپ 

اس نئے مجوزہ بل میں واضح طور پر شق نمبر 26 میں لکھا گیا ہے کہ صوبے میں کسی جگہ پر بھی معدنیات کے ذخائر کی مالک حکومت ہوگی اور حکومت کو اس کی ہر طریقے سے استعمال کی اجازت ہوگ ی۔ 

مجوزہ قانون کے مطابق لیز ہولڈرز معدنیات کی کان کو استعمال کرنے کا حق دار ہو گا لیکن اس کی ملکیت کا دعوی نہیں کر سکتا جبکہ کان کی زمین کے مالک کو لیز ہولڈر باقاعدہ رینٹ ادا کرے گا اور اس حوالے سے مالک جائیداد اور لیز ہولڈر کے مابین باقاعدہ معاہدہ طے کیا جائے گا۔ 

غیر ملکی کمپنیوں کو لیز دینے کا طریقہ کار 

اس مجوزہ قانون کے شق نمبر 65 میں لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی غیر ملکی کمپنی صوبے میں معدنیات لیز لینے میں دلچسپی رکھتی ہے تو اس کے ساتھ معاہدہ فیڈرل مائننگ ونگ اور منرل فیسیلیٹیشن اتھارٹی کے تجاویز ہر کیا جائے گا۔

حزب اختلاف جماعتوں کی بل پر تنقید 

عوامی نیشنل نے مجوزہ مائنز اینڈ منرل قانون کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو مسترد کردیا ہے اور اس کو صوبائی وسائل پر قبضہ کرنے کی ایک چال قرار دے دی ہے۔ 

اے این پی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ قانون نہ صرف آئینِ پاکستان کی 18 ویں ترمیم کی صریحاً خلاف ورزی ہے بلکہ اس کے ذریعے خیبر پختونخوا کے معدنی وسائل پر وفاقی اور غیر صوبائی اداروں کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو ناقابل قبول ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ’اے این پی واضح کرتی ہے کہ پاکستان اور 18 ویں  آئینی ترمیم ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اس ترمیم سے چھیڑ چھاڑ کسی بھی طور پاکستان کے مفاد میں نہیں۔‘

میاں افتخار حسین کے مطابق صوبائی حکومت کی جانب سے متنازع قانون سازی کی بجائے نئے این ایف سی ایوارڈ کے اجراء پر کیوں خاموش ہے؟ 

میاں افتخار حسیں نے بتایا کہ ’یہ قانون صوبائی حکومت کی جانب سے ذاتی مفادات کے لیے پختونخوا کے قدرتی وسائل پر صوبے کی دسترس کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ یہ متنازعہ ایکٹ واضح کرتا ہے کہ پختونخوا کےحقوق غصب کرنے میں موجودہ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت ایک پیج پر ہیں۔‘

صرف حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی کے بعض اپنے ہی اراکین کی جانب سے اس بل کی مخالفت کی جاری ہے۔ 

پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی شکیل نے مائنز اینڈ منرل بل سے متعلق اسمبلی فلور پر گفتگو میں بتایا کہ ’میں تو حیران ہوں کہ یہ بل کابینہ سے کیسے منظور کیا گیا اور پھر اسمبلی میں کیسے پیش کیا گیا۔‘

شکیل خان کے مطابق ’یہ بل 18 ویں ترمیم اور صوبائی وسائل پر قبضے کے مترادف ہے۔‘

صوبائی حکومت کا موقف 

مائنز اینڈ منرل بل پر تنقید کے بعد گذشتہ روز ایک ویڈیو پیغام میں وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے موقف دیتے ہوئے بتایا کہ مائینز اینڈ منرل ایکٹ میں مجوزہ ترمیم سے متعلق غلط فہمی پھیلائی جارہی ہے۔

انہوں نے اس وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’اس ترمیم میں صوبائی حکومت کا کوئی بھی اختیار کسی کو نہیں دیا جا رہا اور صوبے کا اختیار نہ کوئی کسی کو دے سکتا ہے اور نہ کوئی ہم سے لے سکتا ہے۔‘ 

علی امن گنڈاپور نے بتایا ’ہم معدنیات کے شعبے میں اصلاحات کر رہے ہیں اور افسوس کی بات ہے کہ اصلاحات کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لگتا ہے کہ کوئی مافیا ہے جو اپنے ذاتی مفادات کے لیے اصلاحات کی  مخالفت کر رہا ہے۔‘ 

علی امین گنڈاپور نے بتایا کہ پچھلے 76 سالوں سے صوبے میں پلیسر گولڈ کے چار سائٹس  میں غیر قانونی مائننگ ہو رہی تھی اور ماضی میں کسی بھی حکومت نے اس غیر قانونی مائننگ کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ 

انہوں نے بتایا کہ ہم نے حکومت سنبھالتے ہی ایک صاف اور شفاف طریقے سے پلیسر گولڈ کے ان چار سائیٹس کی نیلامی کر دی اور ان چار سائٹس کی نیلامی کے ذریعے صوبائی حکومت کو پانج ارب روپے کی آمدن حاصل ہوئی۔ 

علی امین گنڈاپور کے مطابق اس سے پہلے معدنیات کی لیزز سے متعلق بہت سارے فیصلوں کا اختیار فرد واحد یعنی ڈائریکٹر جنرل کے پاس ہوتا تھا اور اب ہم شفافیت لانے کے لیے ایک کثیر رکنی کمیٹی بنا رہے ہیں جس میں صرف صوبائی حکومت کے سارے متعلقہ محکموں کے  افسران شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا ’یہ بل اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے اور اس پر بحث کی ضرورت ہے۔ اگر حزب اختلاف کے جماعتوں کا کوئی تجویز ہے، تو وہ اسمبلی میں پیش کریں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان