پاکستان کے معروف اداکار عابد علی جمعرات کو کراچی میں انتقال کرگئے، ان کی عمر 67 برس تھی۔ وہ جگر کے عارضے میں مبتلا تھے اور گزشتہ دو ماہ سے کراچی لیاقت نیشنل ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔
عابد علی کا شمار پاکستان ٹیلویژن ڈرامے کے ابتدائی دور کے اداکاروں میں ہوتا ہے، اگرچہ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان کے شہر کوئٹہ مین پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم بھی اسی شہر میں حاصل کی۔ کہانی کہنے کا شوق انہیں بچپن ہی سے تھا اور یہی شوق انہیں ریڈیو پاکستان کوئٹہ لے گیا لیکن وہ صرف صداکار بننے کے لیے اس دنیا میں نہیں آئے تھے۔
1970 کی دہائی میں وہ لاہور تشریف لائے اور 1973 مین پی ٹی وی کے لاہوراسٹیشن کے ڈراما سیریل ’جھوک سیال‘ سے انہیں بہت شہرت ملی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ڈراما پاکستانی ٹیلیویژن کی تاریخ کا سب سے اہم ڈراما ہے کیونکہ اس ڈرامے نے پاکستان میں ٹی وی ڈرامے کو یکسر بدل دیا۔
جھوک سیال ے بعد عابد علی صاحب کا ڈراما ’وارث‘ جس کی ہدایات نصرت ٹھاکر نے دی تھیں اس میں دلاور کے لازوال کردار نے انہیں اداکاری میں جیسے امر کردیا۔ یہ ڈراما آج بھی پی ٹی وی کا کلاسک ڈامہ سیریل میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس کے بعد عابد علی صاحب میں جیسے دم ہی نہیں لیا، ان کے درجنوں ڈرامے ہیں جن میں انہوں نے یادگار کردار کیے جیسے ، ’سمندر‘ (1983)، آن (1984)،ہزاروں راستے (1986)، سورج کے ساتھ ساتھ (1987)، پیاس (1987)، خواہش (1990)، دوریاں (1991)، مہندی (2003)، مورت (2004)، بنٹی آئی لو یو(2013)، رخصتی (2014)، دیار دل (2015)، کچھ نہ کہو (2016)، ناگن (2017)، پنجرہ (2017)، دلدل (2017)، تجدید وفا (2018)، آنگن (2018)، سیرت (2018) سر فہرست ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1990 میں جب پاکستان میں نجی ٹی وی چینل این ٹی ایم کی نشریات شروع ہوئیں تو پہلی نجی پروڈکشن ’دوریاں‘ بھی عابد علی صاحب ہی کی تھی۔
عابد علی 1991 میں نجی پروڈکشن میں تیار کی گئی ڈرامہ سیریل دوریاں سے بطور پروڈیوسر اور ہدایت کار آغاز کرنے کے بعد انہوں نے کئی اور کامیاب ڈرامے پروڈیوس کیے جن میں دوریاں (1991)، دشت (1993)، دوسرا آسمان (1993)، اور ہوا پہ رقص (2002) قابل ذ کر ہیں۔ ان ڈراموں میں ان موضوعات کو چھیڑا گیا جن کی پی ٹی وی پر ممانعت تھی۔ 2000 میں ملک میں پرائیوٹ چینلز کی آمد کے بعد عابد علی نے گولڈ پرج میڈیا کے نام سے اپنی ایک پروڈکشن کمپنی قائم کی جس کے تحت انہوں نے جیو ٹی وہ پر کئی کمرشل سوپ اوپرا بنائے جن میں ’ماسی اور ملکہ‘ (2009) نے بہت شہرت حاصل کی۔ عابد علی نے اپنے پروڈیوس کیے پیشتر ڈراموں میں خود بھی اداکاری کی۔
عابد علی صاحب صرف ڈراموں کی حد تک محدود نہیں رہے انہوں نے فلموں میں بھی کام کیا جن کی تعداد 200 سے زیادہ ہے تاہم انہوں نے زیادہ تر کریکٹر ایکٹر کے طور پر ہی کام کرنے کو ترجیح دی۔ 1970 کی دہائی میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے فلموں کے لیے بنائے گئے ادارے نیفڈیک کی جانب سے بنائی کی گئی واحد فلم ’خاک اور خون‘ میں بھی انہوں نے اداکاری کی۔
ان کی دیگر اہم فلموں میں گمنام (1983)، روٹی (1988)، انسانیت کے دشمن (1990)، کالے چور (1991)، وطن کے رکھوالے (1991)، کوبرا(1991)، فتح (1992)، جنگل کا قانون (1995)، موسیٰ خان (2001)، اور حال ہی میں ریلیز ہونے والی کمرشل فلم 'ہیرمان جا' شامل ہیں۔
عابد علی نے 1970 کی دہائی کے وسط میں اپنے پہلے ڈرامے جھوک سیال کی ہیروئن اداکارہ اور گلوکارہ حمیرا چوہدری سے شادی کی جن سے ان کی تین بیٹیاں مریم علی، ایمان علی اور رحمہ علی ہیں۔ ایمان علی پاکستان کی سُپرماڈل رہ چکی ہیں اور انہوں نے کئی فلموں میں بھی کام کیا ہے۔ جبکہ مریم علی ایک تھیٹر آرٹسٹ اور رحمہ علی اداکاری اور گلوکاری کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ عابد علی نے 2000 کی دہائی کے وسط میں اداکارہ رابعہ نورین سے دوسری شادی کی۔
یہ عابد علی کے ساتھ رابعہ کی بھی دوسری شادی تھی۔ اس شادی کے بعد عابد علی مستقل کراچی ہی میں سکونت اختیار کیے ہوئے تھے جبکہ حمیرا اپنی تنیوں بیٹیوں کے ساتھ لاہور میں رہتی ہیں۔
عابد علی کو پاکستان میں ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلم کے شعبے میں ان کی گرانقدر خدمات کے اعتراف میں 1985 میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی ایوارڈ برائے حسنِ کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔
اس وقت بھی جیو ٹی وہ پر عابد علی کے تین ڈرامے ’میرا رب وارث ‘، ’دل کیا کرے‘اور ’رمز عشق‘ چل رہے ہیں جبکہ ان کی ایک فلم ’ہیر مان جا‘ جو گزشتہ عید الاضحیٰ پر ریلیز ہوئی تھی اب بھی کچھ سنیما گھروں میں چل رہی ہے۔