پاکستان کرکٹ ٹیم دورہ آسٹریلیا کا پہلا ٹیسٹ میچ 14 دسمبر سے پرتھ کے نئے سٹیڈیم میں کھیلے گی۔ پرتھ کا اوپٹس سٹیڈیم جدید اور پچ کے اعتبار سے پرانے گراؤنڈ سے کسی حد تک دوستانہ ہے ورنہ پرانے واکا گراؤنڈ کی پچ تو پاکستانی بلے بازوں کے لیے تباہ کن رہی ہے۔
پاکستان نے اپنے تمام ٹیسٹ میچز وہاں پر ہارے ہیں اور دو دفعہ تو شرمناک شکست ہوئی جب پوری ٹیم 72 رنز پر داغ مفارقت دے گئی۔
2005 سیریز کے پرتھ ٹیسٹ کی دوسری اننگز تو دو گھنٹے بھی نہ چل سکی تھی۔ پاکستان کے لیے غنیمت ہے کہ پرتھ کا واکا گراؤنڈ اب ناقابل استعمال ہے اور قیاس ہے کہ اسے میوزک ایرینا میں تبدیل کردیا جائے گا۔
اوپٹس سٹیڈیم
ٹیلی کمیونیکیشن سے متعلق کمپنی اوپٹس کے نام سے منسوب پرتھ سٹیڈیم میچوں کی تعداد کے لحاظ سے طفل مکتب ہے۔ 2017 میں اس کی تکمیل کے بعد ابتدائی طور پر اسے فٹ بال کے لیے مخصوص کیا گیا تھا لیکن کرکٹ میں زیادہ مصروفیت دیکھ کر مالکان نے اسے کرکٹ کے لیے بھی آراستہ کر دیا۔
ڈراپ ان پچ کے تصور نے اب ہر میدان کو کرکٹ کے لیے آسان بنا دیا ہے۔
پرتھ میں کرکٹ کے لیے عارضی پچ لگائی جاتی ہے کیونکہ کرکٹ صرف موسم گرما کا کھیل ہے ورنہ سارا سال یہاں فٹ بال اور رگبی ہوتی ہے۔
اوپٹس سٹیڈیم میں اب تک تین ٹیسٹ میچز کھیلے گئے ہیں جو میزبان آسٹریلیا نے واضح فرق سے جیت لیے تھے۔
پاکستان ٹیم پہلی دفعہ اس گراؤنڈ پر اس وقت کھیلی جب آسٹریلیا کے دورہ 2019 میں آسٹریلیا سے ٹی ٹوئنٹی میچ ہوا۔ میچ یکطرفہ رہا۔ آسٹریلیا نے دس وکٹ سے جیت لیا۔ اس کے بعد پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 میں بھی دو میچ کھیلے جس میں زمبابوے سے شکست ہوئی تھی۔
شان مسعود کی کپتانی کا امتحان
شان مسعود کی کپتانی کا پہلا امتحان پرتھ میں ہوگا۔ بابر اعظم کی جگہ ان کی تعیناتی خاصی متنازع اور تنقید سے بھرپور رہی ہے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں بدترین اعداد وشمار کے باعث شان مسعود کی مسلسل ٹیم میں شمولیت کو ان کے والد کے اعلی حکام سے مبینہ تعلقات کی وجہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
بابر کی معزولی کو ایک خاص طبقہ کی حکمرانی سے موسوم کیا جارہا ہے لیکن شان مسعود کے حمایتی اس تبدیلی کو قرار واقعی عمل قرار دے رہے ہیں۔ کاؤنٹی کرکٹ میں یارکشائر کی کپتانی کو ان کی صلاحیتوں کا اعتراف سمجھتے ہیں حالانکہ یارکشائر نے نسلی تعصب کے سکینڈل کے باعث فیصلہ کرلیا تھا کہ کسی غیرانگریز کو کپتان بنایا جائے۔
شان سے پہلے پاکستانی عظیم رفیق کپتان تھے۔ یارکشائر ویسے بھی دوسرے درجہ کی ڈویژن میں کھیلتی ہے۔
شان نے اس دورے پر سائیڈ میچ میں ڈبل سنچری بنا کر کسی حد تک اپنے مخالفین کے منہ بند کر دیے ہیں۔ لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں انہیں ایک اعلی درجہ کی بولنگ کا سامنا کرنا ہوگا۔
شان مسعود کیا اچھے کپتان ثابت ہوں گے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن سلجھی ہوئی شخصیت اور بردباری ان کی کپتانی میں عمران خان جیسا ٹھہراؤ لاسکتی ہے۔ سابق آسٹریلوی کپتان گریگ چیپل نے عمران خان کے بعد پہلا مستند کپتان قرار دیا ہے جبکہ سابق انگلش کپتان مائیکل واہن انہیں بہترین انتخاب کہہ چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شان مسعود کا پہلا چیلینج ایک مضبوط اور متوازن ٹیم کا انتخاب ہے۔ وہ کم گو اور سنجیدہ کھلاڑی ہیں جو مخالف ٹیم کی حکمت عملی پر بہت قریب سے غور کرتے ہیں۔ یارکشائر کے سابق کپتان جیوفری بائیکاٹ ان کی کپتانی سے متاثر ہیں اور تعریف کرتے ہیں۔
شان مسعود کو اندازہ ہے کہ یہ دورہ انتہائی مشکل اور کپتانی کے لیے کانٹوں کی سیج ہے لیکن وہ پراعتماد ہیں۔
ٹیم کیسی ہوگی؟
پاکستان ٹیم کے ڈائریکٹر کرکٹ محمد حفیظ کے آسٹریلیا میں ساتھ ہونے سے ٹیم کے انتخاب میں ہیڈکوچ کی اہمیت ختم ہوگئی ہے۔ محمد حفیظ جو آسٹریلیا میں کبھی نہیں کھیلے اور بدترین ٹیسٹ کیرئیر کے حامل ہیں ان کی ٹیم میں مداخلت سمجھ سے بالاتر ہے۔
ایک ڈائریکٹر کی حیثیت سے انہیں پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ دیکھنا چاہیے لیکن وہ ٹیم کے ساتھ پریکٹس کر رہے ہیں ان کے غلط مشورے اور تیکنیک ٹیم کو مہنگی پڑے گی۔
پاکستان اوپنرز کے لیے خراب کارکردگی کے باوجود امام الحق کو موقع دے گا جبکہ عبداللہ شفیق دوسرے اوپنر ہوں گے۔ شان مسعود بابر اعظم اور سعود شکیل مڈل آرڈر میں ہوں گے۔ سرفراز احمد وکٹ کیپر ہوں گے۔
پاکستان ایک آل راؤنڈر کی حیثیت سے فہیم اشرف یا عامر جمال کا انتخاب کرے گا۔ فہیم اشرف ناکامیوں کے باوجود ٹیم کے ساتھ ساتھ ہیں۔ شاہین شاہ آفریدی، حسن علی اور میر حمزہ فاسٹ بولر ہوں گے جبکہ سپنر کے لیے پاکستان کے پاس واحد اختیار نعمان علی ہیں کیونکہ ابرار احمد زخمی ہیں۔
اگر ساجد خان پرتھ ٹیسٹ سے قبل پہنچ گئے تو کھیل سکتے ہیں۔ دوسرا آپشن سلمان علی آغا ہیں جو نعمان کی جگہ کھیل سکتے ہیں اچھے آف سپنر کے ساتھ قابل اعتماد بلے باز ہیں۔
پچ کیسی ہوگی؟
پرتھ میں ڈراپ ان پچ بچھائی جائے گی جو پہلے سے تیار ہے اور شاید کسی غلاف میں ہے اس سے پچ پر باؤنس کچھ کم ہوسکتا ہے اور بیٹنگ کو کسی حد تک سکون مل سکے لیکن پرتھ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پچ پر گھاس بھی ہے اور باؤنس بھی۔
پاکستان ٹیم کے بلے بازوں کے لیے اس پچ پر سخت امتحان ہوگا۔ پاکستانی بولرز کو ایسی پچ پر بولنگ کا زیادہ تجربہ نہیں ہے لیکن آسٹریلوی بولرز اس کے عادی ہیں اس لیے ان کو باؤنس ملنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ ڈراپ ان پچ پر گیند سیم کم ہوتا ہے کیونکہ اس پر سپاٹ کم بنتے ہیں چٹختی بھی نہیں ہے اور نہ کہیں اضافی باؤنس لیکن عمومی طور پر زیادہ فرق نہیں ہوتا۔
بعض اوقات اس پر کہیں کہیں مٹی دب جاتی ہے۔ پاکستان ٹیم پچ پر گھاس کی وجہ سے چار فاسٹ بولرز کے ساتھ کھیل سکتی ہے۔
پاکستان ٹیم نے گذشتہ ایک سال میں زیادہ تر کرکٹ سست اور بے جان پچوں پر کھیلی ہے جس کے باعث بلے بازوں کو بیک فٹ پر کھیلنے کی عادت نہیں رہی ہے جبکہ آسٹریلیا میں ہر دوسری گیند بیک فٹ پر کھیلنا پڑتی ہے۔ اور سکورنگ شاٹ کے لیے افقی (horizantol) انداز اپنانا پڑتا ہے۔
تیز باؤنس کے باعث اپنے کھڑے ہونے کا انداز کچھ بدلنا پڑتا ہے۔ عظیم بلے باز ظہیر عباس آسٹریلیا میں اپنا انداز کچھ بدل لیتے تھے اور کمر کو نسبتاً سیدھا رکھتے تھے جس سے انہیں شاٹ کھیلنے میں آسانی رہتی تھی۔ یہی تیکنیک سچن ٹنڈولکر اپناتے تھے وہ بلے کی گرپ کچھ اوپر سے پکڑتے تھے تاکہ گیند پر بیٹ افقی کرسکیں۔
ماجد خان، آصف اقبال، وسیم راجہ، عمران خان، جاوید میاں داد جیسے بڑے بلے باز آسٹریلیا میں ہمیشہ اپنے انداز میں کچھ تبدیلی کرتے تھے اور بیک فٹ کا بہترین استعمال کرتے تھے جہاں آپ کو سکوائر آف وکٹ پر بہت زیادہ موقع ملتا ہے۔ اسد شفیق کی برسبین کی تاریخی اننگز اس کا شاہکار تھی۔
کیا پاکستانی بلے باز اس دورے میں کچھ کرسکیں گے اور بولنگ کے لیے مناسب رنز کا ہدف دے سکیں گے اس کا جواب پرتھ کے پہلے ٹیسٹ میں ہی مل جائے گا لیکن کپتان شان مسعود نے واضح کر دیا ہے کہ وہ جارحانہ کرکٹ کھیلیں گے کیونکہ حملہ سب سے بہترین دفاع ہے۔
نتائج سے خوف میں مبتلا ہونے کی بجائے مثبت اور جارحانہ کرکٹ ہی کینگروز کی پیش قدمی روک سکتی ہے ورنہ پرتھ کا نیا گراؤنڈ ایک اور شکست کو درج کرنے کے لیے بیتاب ہے۔