پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم اپنے 35ویں کپتان شان مسعود کی سربراہی میں آج آسٹریلیا روانہ ہو چکی ہے جہاں وہ آسٹریلوی ٹیم کے خلاف تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلے گی۔
سیریز کے شیڈول کے مطابق دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ٹیسٹ 14 دسمبر سے پرتھ میں شروع ہو گا جبکہ باقی دو ٹیسٹ میچ میلبرن اور سڈنی میں کھیلے جائیں گے۔
پاکستان نے اب تک آسٹریلیا کی سرزمین پر 37 ٹیسٹ میچ کھیلے ہیں جن میں پاکستان صرف چار میچ جیت سکا ہے جبکہ 26 میں اسے شکست ہوئی۔
صرف یہی نہیں بلکہ پاکستان کو آسٹریلیا میں اپنے آخری 14 میچوں میں لگاتار شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
پاکستان نے 65-1964 میں پہلی دفعہ آسٹریلیا کا دورہ کیا تھا جو ایک ٹیسٹ پر مبنی تھا اور ڈرا ہو گیا تھا۔
پاکستان نے اپنا دوسرا دورہ 73-1972 میں انتخاب عالم کی کپتانی میں کیا جس میں تینوں ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کو شکست ہوئی۔
پاکستان کا تیسرا دورہ 77-1976 میں ہوا۔ اس دورے میں پاکستان نے پہلی دفعہ سڈنی میں جیت حاصل کی۔
جس کا سہرا عمران خان کی شاندار بولنگ کے سر رہا۔ ان کی میچ میں 12وکٹوں کی کارکردگی نے پاکستان کی جیت کا کھاتہ کھولا۔
یہ سیریز ایک ایک میچ سے برابر رہی۔
پاکستان کا چوتھا دورہ مشتاق محمد کی قیادت میں 79-1978 میں ہوا۔
اس سیریز میں میلبرن میں سرفراز نوازکی ایک اننگز میں نو وکٹ کی کارکردگی نے آسٹریلیا کے خلاف دوسری جیت رقم کردی۔
سرفرازنواز کا نام آج بھی میلبرن کے میرٹ بورڈ پر سب سے اوپر ہے۔
پانچواں دورہ پاکستان نے جاوید میاں داد کی قیادت میں 1981 میں کیا۔ میلبرن میں ایک بار پھر پاکستان کی جیت کامقام بن گیا۔ پاکستان نے اپنی تیسری جیت بھی اسی میدان میں حاصل کی۔
پاکستان نے 1983 اور 1989 میں آسٹریلیا کا دورہ کیا لیکن پاکستان دونوں سیریز ہار گیا۔
پاکستان کو اپنی چوتھی جیت کے لیے 14 سال انتظار کرنا پڑا۔
1995 کے دورے میں سڈنی ٹیسٹ میں وسیم اکرم کی قیادت میں پاکستان نے جیت حاصل کی جس میں وسیم اکرم اور مشتاق احمد کی شاندار بولنگ نے اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان نے اس کے بعد مزید پانچ دورے کیے۔ لیکن کسی بھی دورے میں پاکستان جیت نہیں سکا۔
پاکستان کو پانچ مرتبہ وائٹ واش ہوچکا ہے یعنی پاکستان سیریز کے تمام ٹیسٹ میچ ہار گیا۔
حالانکہ چند مواقع پر پاکستان جیت کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا۔
2009 کی سیریز میں سڈنی ٹیسٹ میں پاکستان 176 رنز کا ہدف عبور نہ کرسکا تھا اور 36 رنز سے ہارگیا۔
جبکہ 2016 کی سیریز میں برسبین ٹیسٹ میں اسد شفیق کی میراتھن سنچری کے باعث پاکستان 490 رنز کے تاریخی ہدف کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا لیکن آخری لمحات میں 39 رنز سے ہار گیا۔
اگر یہ عبور ہوجاتا تو کرکٹ تاریخ کا سب سے بڑا ہدف عبور ہوتا۔
شکست کی وجہ کیا ہے؟
پاکستان کی شکستوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو بیٹنگ ان تمام شکستوں کی زیادہ ذمہ دار نظر آتی ہے۔
پاکستانی پچوں پر رنز کے انبار لگانے والے بلے بازجب آسٹریلیا کی پچوں پر بیٹنگ کرتے ہیں تو آسٹریلین بولرز کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔
بیٹنگ کی زبوں حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو دفعہ پاکستان 62 رنز پر آل آؤٹ ہوچکا ہے۔ پاکستان کی طرف سے ایک ہی ڈبل سنچری بنی ہے جو اظہر علی نے 2016 کے دورے میں بنائی تھی۔
پاکستان کی طرف سے سب سے زیادہ رنز بنانے کا اعزاز ظہیر عباس کے پاس ہے۔
انہوں نے 15 میچوں میں 1097 رنز بنائے ہیں جبکہ آصف اقبال اور اعجاز احمد نے سب سے زیادہ تین تین سنچری سکور کی ہیں۔
بولنگ میں سرفرازنواز 50 وکٹوں کے ساتھ سرفہرست ہیں۔ ان کا میلبرن کا بولنگ سپیل جس میں 86 رنز دے کر نو وکٹ لیے تھے، یادگار بولنگ تھی۔
اس دن انھوں نے آخری سات وکٹ کے لیے صرف ایک رن دیا تھا۔ اس کے علاوہ عمران خان کی سڈنی میں تباہ کن بولنگ جس نے پہلی فتح دلائی تھی۔
پاکستان کی بولنگ ان تین کے علاوہ زیادہ موثر نہیں رہی۔ گذشتہ سیریز میں پاکستانی بولنگ مکمل ناکام ہو گئی تھی۔
کیا موجودہ ٹیم کچھ کر سکے گی؟
پاکستان کی موجودہ ٹیم کو اگر جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ سب سے کمزور ٹیم آسٹریلیا کا دورہ کررہی ہے۔
پاکستان کی بیٹنگ کا زیادہ تر انحصار تو بابراعظم پر ہو گا۔ جو حال ہی میں کپتانی سے سبکدوش ہوئے ہیں۔
ان کی بیٹنگ پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں کیونکہ وہ گذشتہ ورلڈکپ میں بہت اچھی بیٹنگ نہیں کرسکے۔
لیکن بابر اعظم اس ٹیم کے واحد بلے بازہیں جس نے آسٹریلیا میں سنچری اسکور کی ہوئی ہے ان سے بہت زیادہ امیدیں ہیں۔
کپتان شان مسعود ڈومیسٹک سیزن میں کافی رنز کرچکے ہیں وہ بھی توقعات کا مرکز ہوں گے۔
لیکن ان کا ٹیسٹ کرکٹ میں ریکارڈ بہت خراب ہے اور وہ ہمیشہ خوش قسمت رہتے ہیں جو خراب کارکردگی کے باوجود منتخب ہوجاتے ہیں۔
اوپنرز عبداللہ شفیق امام الحق اور سعود شکیل کے لیے یہ بہت مشکل دورہ ہوگا سعود شکیل پہلی دفعہ جارہے ہیں ان کے لیے آسٹریلین بولنگ کھیلنا آسان نہیں ہو گا۔
مڈل آرڈر میں اگر رضوان نہ کھیلے تو سلمان آغا اور سرفراز پر ذمہ داری ہو گی تاہم کسی بھی بلے بازسے کسی بڑی کارکردگی کی امید بے سود ہے۔
بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی کے علاوہ کوئی قابل ذکر بولر نہیں ہے۔
اگر شاہین آفریدی کینگروز کو تنگ نہ کر سکے تو آسٹریلیا ہر اننگز میں بہت بڑا سکور کر سکتا ہے۔
سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر عاقب جاوید تو ہر ٹیسٹ میں میزبان ٹیم کو ایک دفعہ ہی کھیلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ کوئی اچھا سپنر بھی ساتھ نہیں ہے۔
ابرار احمد ناتجربہ کارسپنر ہیں انھیں آسٹریلین کنڈیشنز میں نپی تلی بولنگ کرنا مشکل ہو گی۔
کیا یہ چھٹا وائٹ واش ہو گا؟
عاقب جاوید تو وائٹ واش کی پیشن گوئی کر رہے ہیں لیکن کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے۔
اس کا جواب ماہرین اثبات میں دے رہے ہیں کیونکہ بیٹنگ اور بولنگ دونوں زبوں حالی کا شکار ہیں۔
بیٹنگ میں اعتماد کی کمی کے ساتھ تکنیک کی بھی کمی ہے۔
اوپننگ میں وہ مہارت نہیں ہے جو مستحکم آغاز دے سکے اور مڈل آرڈر ہمیشہ دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔
نئے کپتان شان مسعود خود اپنی کارکردگی پر منتخب نہیں ہوئے ہیں لہذا ٹیم کے دوسرے بلے بازوں کو کیا کہہ سکتے ہیں۔
ناقدین اس مشکل اور اہم دورے پر بابر اعظم کو کپتانی سے ہٹانے پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ بابر اپنی بیٹنگ سے دوسرے بلے بازوں کو بھی حوصلہ دے سکتے تھے اور ٹیم کپتان کی ذمہ داری بھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن اب جبکہ پی سی بی نے شان مسعود کو مشکل سیریز کا کپتان مقرر کر دیا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ انھیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے تاہم شان مسعود اس سے خوف زدہ نہیں ہیں۔
آسٹریلیا کی ٹیم اس وقت بہت مضبوط اور بہترین فارم میں ہے۔ ورلڈکپ جیتنے کے بعد اس کی فارم واپس آ چکی ہے۔
پاکستانی ٹیم کے لیے آسٹریلین بولنگ اور بیٹنگ کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہو گا۔
اگر کھلاڑیوں نے اپنی صلاحیتوں کو بھرپور بروئے کار لاتے ہوئے اعتماد سے مقابلہ کیا تو نتیجہ شاید کچھ مختلف ہو جائے۔
تاہم آسٹریلین سرزمین پر موجودہ سیریز میں نتائج اپنی روایت کے مطابق ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے ٹیم کی آسٹریلیا کے لیے روانگی کے بعد پریس ریلیز میں بتایا ہے کہ پی سی بی نے ٹیسٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود کو سینٹرل کانٹریکٹ میں ڈی کیٹگری سے ترقی دیتے ہوئے بی کیٹگری میں شامل کر لیا ہے۔