ہمارے آج کے بلاگ کا موضوع کچھ افراد کو کافی گھسا پٹا سا معلوم ہو سکتا ہے۔ وہ کہیں گے، ارے یہ فیمینسٹس کب تک اس بات کا رونا روئیں گی۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
پر رونا ضروری ہے کیوں کہ اس مسئلے کہ وجہ سے قریباً ہر دوسری عورت کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔
ایک عورت نے چاہے دنیا تسخیر کی ہو لیکن معاشرہ اسے اس کی شادی کے اعتبار سے دیکھتا اور پرکھتا ہے۔
وہ خود بھی اپنی زندگی میں اپنی کامیابیوں کے ساتھ ایک ایسا جیون ساتھی چاہتی ہے جو اسے قبول کرے اور اس کی زندگی کو آسان بنائے۔
اس کے ساتھ مل کر اس کی کامیابیوں پر جشن منائے۔ اس کے لیے پھول لائے۔ اس کے پکائے ہوئے کھانے کو کھاتے ہوئے اس کی تعریف کرے۔
کبھی وہ اداس بیٹھی ہو تو اس سے کچھ دیر بات کر لے۔ اسے احساس دلائے کہ وہ اس کی زندگی میں اہم ہے۔ اس سے زیادہ ایک عورت کچھ نہیں چاہتی۔
جب عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے چاہت ملتی ہے تو وہ اس کے ساتھ کسی بھی حالت میں رہ لیتی ہے۔
تاہم، اکثر شوہر اپنی بیویوں کی قدر نہیں کرتے۔ وہ انہیں بیاہ کر تو لاتے ہیں لیکن پھر انہیں توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔
اسی لیے ماں باپ اپنی بیٹیوں کا رشتہ کرتے ہوئے ڈرے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی بیٹیوں کے لیے آنے والے ہر رشتے کی تحقیقات کرتے ہیں اور اس میں بہت احتیاط سے کام بھی لیتے ہیں کہ کہیں رشتہ لانے والے ناراض نہ ہو جائیں۔
وہ ان سے ہر موضوع پر صاف بات کرتے ہیں لیکن احتیاط سے کہ کہیں بنتی ہوئی بات بگڑ نہ جائے یا بن کر بگڑ نہ جائے۔ جب ان کی بیٹی کی شادی ہوتی ہے تو پورا خاندان انہیں سہارا دینے آتا ہے تاکہ وہ حوصلے سے اپنی بیٹی کو ایک انجان مرد کے حوالے کر سکیں۔
اس سلسلے میں نکاح نامہ ایک ایسا کاغذ بتایا جاتا ہے جو شادی میں عورت کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ اگرچہ، قانونی لحاظ سے اس کی حیثیت کچھ اتنی خاص نہیں ہے اور معاشرتی لحاظ سے تو وہ کسی کھاتے میں ہی نہیں آتا۔
رشتے کی بات چیت کے دوران لڑکی والے لڑکے والوں سے اس بارے میں بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ وہی بات کہ کہیں وہ برا نہ مان جائیں۔
ان کے لیے تو بیسیوں گھروں کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ یہاں سے اٹھیں گے تو کہیں اور جا کر بیٹھ جائیں گے۔ وہ نہیں تو کوئی اور انہیں اپنی بیٹی دے ہی دے گا۔
شادی میں عورت بہت قربانیاں دیتی ہے۔ وہ اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اپنی شناخت تک تبدیل کر لیتی ہے۔ پھر آگے قدردان نہ ملیں تو اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ مرد عورت کو کئی وعدے کر کے بیاہ کر لاتا ہے اور پھر ان وعدوں کو پورا کرنے سے انکاری ہو جاتا ہے۔ عورتیں صبر شکر کر کے اس کے ساتھ گزارا کرتی ہیں۔ معاملہ بہت ہی بگڑ جائے تو دل مضبوط کر کے اس سے علیحدگی لیتی ہیں۔ پھر اس کا غم اٹھاتی ہیں۔
ہر خاندان میں ایسی دو چار مثالیں موجود ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا معاشرہ اس کاغذ کو محض لڑکے اور لڑکی کے بائیو ڈیٹا فِل کرنے کی حد تک محدود رکھتا ہے۔
اگر لڑکی والے نکاح نامے کے دوسرے صفحے پر کوئی شرط رکھنا چاہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ زبان کا اعتبار کریں۔
اس پیچیدہ صورت حال میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اول، شادی کی رجسٹریشن کا نظام یونین کونسل اور نادرا کے مابین لنک ہونا چاہیے تاکہ یونین کونسل میں رجسٹر ہونے والی ہر شادی فوراً نادرا کے ریکارڈ میں بھی رجسٹر ہو جائے۔
اس سے خواتین کو بہت سہارا ملے گا۔ ان کے شوہروں کی چھپی ہوئی شادیاں سامنے آ جائیں گی۔ یا جو مرد ان سے شادی کرنے کے باوجود شادی کو رجسٹر نہیں کرواتے، ان کی لازمی رجسٹریشن ممکن ہو پائے گی۔
اس کے ساتھ ساتھ اگر یہ قانون بنا دیا جائے کہ ہر نکاح نامے میں کچھ شرائط پہلے سے لکھی ہوئی ہوں جیسے کہ:
آدمی شادی کے بعد بیوی کو اپنے ساتھ رکھے گا۔
وہ اس کے نان نفقے کا ذمہ دار ہوگا۔
وہ اس شادی سے پیدا ہونے والے بچوں کی ذمہ داری اٹھائے گا۔
اور اپنی تنخواہ کا ایک مخصوص حصہ ہر ماہ بیوی کو جیب خرچ کی صورت میں دے گا تو خواتین کی زندگی کافی تبدیل ہو سکتی ہے۔
اس سلسلے میں نکاح نامے کے ساتھ مرد کی کمائی کا تصدیق شدہ پروف جو وہ ہر سال کمائی کے بڑھنے کی صورت میں لازمی جمع کروائے، ضرور شامل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ اس کے بنک اکاؤنٹ اور پراپرٹی کی تفصیلات بھی نکاح نامے کا حصہ ہونا چاہیے۔
تاکہ کوئی بھی آدمی صرف شادی سے اس وجہ سے نہ نکل سکے کہ میرا ذہن آج صبح سے تمہیں تسلیم نہیں کر رہا۔
کم از کم ایسی صورت میں عورت اس کاغذ کے ذریعے اپنا حق مانگ سکتی ہے اور اپنی زندگی کو دوبارہ سے شروع کر سکتی ہے۔
یہ اقدام ان عورتوں کی بھی مدد کریں گے جنہیں یہ مرد اپنی اگلی شادیوں کے لیے منتخب کرتے ہیں۔ وہ آرام سے ان کی پچھلی شادیوں کا احوال معلوم کر کے ان سے شادی کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کر پائیں گی۔
صرف زبان کے سہارے بیٹیاں بیاہنا کافی نہیں ہے۔ ان کے حقوق کا تحفظ بہت ضروری ہے اور اس سلسلے میں معاشرے سے زیادہ حکومت کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔