اکتوبر 2017 میں مغربی دنیا کے ہر مرد باس کو ایک پیغام موصول ہوا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ ان کے ان باکس یا پی اے (پرسنل اسسٹنٹ) کی فائلنگ ٹرے میں نہ آیا ہو، لیکن انہیں یہ یقینی طور پر ذرائع ابلاغ کی نمایاں سرخیوں، بے شمار ٹوئٹر (موجودہ ایکس) پوسٹوں اور یہاں تک کہ ٹیلی ویژن ڈراموں اور آئندہ برسوں میں ریلیز کیے جانے والے ڈراموں کے ذریعے ضرور ملا۔
امریکی فلم ساز ہاروی وائن سٹائن کے سلسلہ وار جنسی شکاری ہونے کے انکشافات اور اس کے بعد کی ہراسانی کے خلاف ’می ٹو‘ مہم نے واضح کر دیا کہ طاقت ور افراد ملازمت کی جگہ پر اپنے ساتھیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
خاص طور پر جونیئر ملازمین کو جو لامحالہ زیادہ کمزور ہوتے ہیں، اب یہ رویہ مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔
اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ برطانوی ملٹی نیشنل پیٹرولیم اور گیس کمپنی بی پی کے چیف ایگزیکٹیو برنرڈ لونی نے اس پیغام کو قبول نہیں کیا یا شاید سوچا کہ یہ کسی طرح ان کے لیے نہیں۔
پرانے زمانے سے صاحب حیثیت مرد حضرات کی یہی روش ہے۔ تیل کی دیو قامت کمپنی نے حال ہی میں اعلان کیا کہ اس نے لونی کو باضابطہ طور پر برطرف کر دیا کیوں کہ وہ بی پی بورڈ کو ساتھیوں کے ساتھ ذاتی تعلقات کے سلسلے کے بارے میں بتانے میں ناکام رہے۔
اس سے بھی بڑھ کر بورڈ نے انہیں تین کروڑ 20 لاکھ پاؤنڈ کی تنخواہ اور حصص دینے سے انکار کر کے انہیں وہاں ضرب لگائی جہاں تکلیف ہوتی ہے۔ (ایسی سزا جو بہت ہی کم ’نازک مقام‘ پر ختم ہوتی ہے۔)
یہ ایسی سزا ہے جسے دفتر کے دوسرے دل پھینک ملازمین کے لیے زبردست رکاوٹ کے طور پر کام کرنا چاہیے۔
اس نے میک ڈونلڈز کے برطرف کیے گئے باس سٹیو ایسٹر بروک کی جانب سے ادا کردہ چار لاکھ پاؤنڈ کی رقم کی اہمیت بھی کم کر دی۔
ایسٹر بروک کو کمپنی کی پالیسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ملازمہ کے ساتھ رضامندی سے تعلقات قائم کرنے کے الزام میں برطرف کر دیا گیا تھا۔ (انہوں نے نہ تو ان دعوؤں کو تسلیم کیا اور نہ ہی انکار کیا۔)
یہ دونوں معاملے پرانے جنسی سکینڈلز سے بھی دلچسپ انداز میں ہٹ کر ہیں جن میں آفس کے جونیئر اہلکار نے لامحالہ ذمہ داری قبول کی۔
میں 1993 میں جونیئر حیثیت میں اس وقت کے جی کیو میگزین کے ایڈیٹر مائیکل ورملن کے پی اے کے طور پر کام کر رہی تھی۔
میں میگزین کے ڈپٹی ایڈیٹر کے عشق میں گرفتار ہو گئی۔ تب یہ واضح ہو گیا کہ ہمارے بڑے باسز نے اس تعلق کو ناپسند کیا۔
اس سے بھی زیادہ اس لیے کہ جو شخص اب میرے شوہر ہیں وہ مجھ سے 15 سال بڑے تھے۔ لیکن اندازہ لگائیں کہ کسے برطرف کیا گیا؟ ہاں یہ میں تھی۔
مجھے برطرفی کی وجہ سے چند ماہ کی تنخواہ دی گئی اور کچھ واضح نہیں اگلی ملازمت کہاں ملے گی۔
اس کے بعد فوراً خود ورملن کی باری آ گئی۔ میڈیا کمپنی کوندے ناست کے شعبہ انسانی وسائل کے طاقت ور سربراہ کے سامنے پیش ہونا پڑا کیوں کہ ان کے جونیئر سابق ملازمین میں سے ایک نے ان پر ہراسانی کا الزام لگایا۔
اس نوجوان خاتون کو بھی چھوٹی سی رقم دے کر چلتا کر دیا گیا۔ اگرچہ زیادہ تر لوگ جانتے تھے کہ ورملن عام طور پر بیک وقت متعدد معاشقے چلا رہے تھے۔ اس وقت ایسا ہی ہوتا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ میں ان وجوہات کو بھی سمجھنا شروع کر سکتی ہوں جن کی بنا پر لونی اور ایسٹر بروک جیسے بڑوں نے سوچا کہ وہ گذشتہ ایک دہائی کے دوران دفتر میں معاشقے کرتے ہوئے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
ایک ایسے وقت جب اختیارات کے غلط استعمال پر خواتین کا غصہ پوری طرح سے ظاہر ہوا اور دنیا بھر میں لاکھوں خواتین جمع ہوئیں اور سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خواتین کو ان کے ’نازک مقام سے پکڑنے کے قابل ہونے‘ ہونے صنفی امتیاز پر مبنی شیخی کے خلاف مارچ کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بات یہ ہے کہ ان دونوں افراد کا تعلق اس نسل سے ہے جسے جنریشن ایکس کہا جاتا ہے (ہم سب کی عمر 50 سے کچھ زیادہ یا 55 سال تک ہے) اور رویے کو 1990 کی دہائی کے سماجی اور ثقافتی عوامل نے متاثر کیا۔
اس دور میں مرد حضرات کے لیے شوخ میگزینوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ یہ میگزین بریزیئر بنانے والی کمپنی ونڈر برا کی ماڈلز اور خواتین کو اپنی جانب ’متوجہ‘ کرنے کے مشوروں سے مزین ہوتے تھے۔
یہ ایک ایسا دور تھا جس میں مرد ’پک اپ آرٹسٹوں‘ (پی یو اے) (رومانوی تعلق میں کامیابی کے گُر بتانے والے) کا عروج دیکھا گیا۔ یہ تصور رولنگ سٹون کے صحافی نیل سٹراس نے 2005 میں عوام کے سامنے پیش کیا۔
اس تناظر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ 1990 کی دہائی میں جوان ہونے والے مردوں نے کس طرح کچھ ’لیڈ ایڈ‘کو اس کا احساس کیے بغیر قبول کر لیا-
یہاں تک کہ ان لوگوں نے بھی جو خود کو جدید لبرل سمجھتے تھے۔ (مثال کے طور پر لونی کی پرورش کیری کے ایک چھوٹے سے فارم میں ہوئی۔ انہوں نے انتہائی لبرل سٹینفرڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور یہ کہنے پر ان کی تعریف کی گئی کہ وہ توانائی کی دیوقامت روسی کمپنی روزنیفٹ کے ساتھ بی پی کے تعلقات کو ختم کردیں گے۔
مجھے یقین ہے کہ ایسی بہت سی خواتین موجود ہیں جو دفتر میں زیادہ عمر کے مردوں کے ساتھ تعلقات قائم کے لیے تیار ہیں لیکن یہ بات نہیں۔
جب طاقت ور مردوں کے جونیئر ملازمین کے ساتھ تعلقات قائم ہوتے ہیں تو یہ صحیح یا غلط طور پر کام کی جگہ پر یہ تصور متعارف کرواتا ہے کہ میرٹ کی بجائے بیڈروم کے راستے کیریئر میں کسی قسم کی ترقی دی جاسکتی ہے۔
خواتین کے ووٹ کے لیے خواتین ’سفراگٹس‘ کی مہم کے بعد حقوق نسواں کی چار تحریکیں اور می ٹو مہم مضحکہ خیز بات ہے۔
اب ’طاقت ور مرد حضرات‘ کو اپنی حرکتوں پر لاکھوں پاؤنڈ ادا کرنے پڑتے ہیں۔ ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ مردوں کے لیے مخصوص میگزینوں کی طرح ایسے مرد حضرات اس طرح ناپید ہو جائیں گے جیسے ڈائنوسار معدوم ہو گئے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔
© The Independent