امریکہ میں حکام کا کہنا ہے کہ پانچ ماہ کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ نیویارک کے گورنر اینڈریو کومو نے ریاستی اور وفاقی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے متعدد خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا اور دفتر میں 'خوف کا ماحول' بنائے رکھا۔
اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز نے ایک اخباری کانفرنس میں بتایا کہ آزادانہ تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کومو نے کم از کم 11 خواتین کے ساتھ 'نامناسب رویہ' اختیار کیا۔
ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی اینڈریو کومو سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ریاستی حکام نے الزامات کے درست ہونے کی تسلی کر لی ہے تو انہیں عہدہ چھوڑ دینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیموکریٹک گورنر کا دفتر ملازمت کے لیے غیرمحفوظ جگہ بن چکی تھی جہاں خواتین کو ہراساں کیا جاتا تھا۔
168 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ اینڈریو کومو کے سیاسی مستقبل کے لیے بڑا دھچکا اور ان کی انتظامیہ کے لیے بڑی رکاوٹ ثابت ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اینڈریو کومو کے خلاف یہ تحقیقات سول نوعیت کی تھیں اور ان پر براہ راست کسی مجرمانہ الزامات کا باعث نہیں بنیں گی۔
تاہم گورنر نے منگل کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ مستعفی نہیں ہوں گے۔ انہوں نے ریاستی عہدیداروں کی تحقیقات کے باوجود 10 سے زیادہ خواتین کے الزامات کو سچائی سے دور قرار دیا۔
ان تحقیقات کی قیادت ان کی اپنی پارٹی کے ایک اٹارنی جنرل کر رہے تھے۔
انہوں نے اپنے دفاع میں خواتین اور مردوں دونوں کو قریب سے گلے لگاتے ہوئے ایک عجیب و غریب ویڈیو مونٹاج بھی دکھایا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ عام طور پر تمام لوگوں کو اس طرح چھوتے ہیں۔
نیویارک کے ڈیموکریٹ کو اب اپنی ہی پارٹی کے ارکان کی طرف سے لائی گئی مواخذے کی کارروائی کا سامنا کرنے امکان ہے جنہوں نے منگل کو کہا کہ وہ اس کی تیاری کر رہے ہیں۔
منگل کو اپنی نیوز کانفرنس میں ریاستی اے جی لیٹیشیا جیمز نے کہا کہ ’انہوں نے تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ گورنر اینڈریو کوومو نے نیویارک کے موجودہ اور سابق ریاستی ملازمین کو ناپسندیدہ اور ان کی رضا مندی کے بغیر چھونے اور جنسی نوعیت کے متعدد ناپسندیدہ تبصرے کرکے جنسی طور پر ہراساں کیا جس نے خواتین کے لیے کام کا معاندانہ ماحول پیدا کیا۔‘
ان کی تحقیقات کے نتائج نے گورنر کی برطرفی کے متعدد مطالبات کو جنم دیا۔ یہ مطالبات کرنے والوں میں ایوان اور سینیٹ کے ڈیموکریٹک رہنماؤں کے علاوہ متعدد ریاستی قانون سازوں اور دیگر ممتاز ڈیموکریٹک شخصیات بھی شامل ہیں۔
اس خبر کی تیاری میں مختلف خبر رساں اداروں اور دا انڈپینڈنٹ سے مدد لی گئی ہے۔