پاکستان نے جمہوریہ چیک کے دارالحکومت پراگ کی چارلس یونیورسٹی میں ہونے والے فائرنگ کے واقعے میں انسانی جانوں کے نقصان پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔
نگران وفاقی وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی ایکس (سابقہ ٹوئٹر) میں ایک پیغام میں لکھا: ’گزشتہ روز چارلس یونیورسٹی پراگ میں ہونے والی المناک شوٹنگ سے گہرا دکھ ہوا۔ دکھ کی اس گھڑی میں میں متاثرین کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں اور تمام زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا کرتا ہوں۔‘
Deeply saddened by the tragic shooting that took place at Charles University #Prague, yesterday. In this hour of grief, I express my heartfelt condolences to the families of the victims and pray for the recovery of all the injured.
— Jalil Abbas Jilani (@JalilJilani) December 22, 2023
@JanLipavsky
یورپی ملک جمہوریہ چیک کی پولیس نے جمعرات کو بتایا ہے کہ دارالحکومت پراگ کی ایک یونیورسٹی میں ایک 24 سالہ طالب علم کی فائرنگ کے نتیجے میں 14 افراد جان سے چلے گئے اور 25 زخمی ہو گئے جبکہ حملہ آور کو بھی مار دیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چیک میڈیا کا کہنا ہے کہ فائرنگ کا واقعہ چارلز یونیورسٹی کے شعبہ آرٹس میں پیش آیا جہاں پولیس کی کارروائی جاری رہی جب کہ تدریسی عملے اور طلبہ کو محفوظ مقام پر جانےکی ہدایت کی گئی۔
شہر کے تاریخی مرکز میں ہونے والے اس حملے کے بعد بھاری ہتھیاروں سے لیس پولیس کی جانب سے بڑے پیمانے پر ردعمل سامنے آیا اور لوگوں کو گھروں کے اندر رہنے کی وارننگ دی گئی۔
چیک پولیس نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر بتایا: ’اس وقت ہم 15 سے زیادہ اموات اور درجنوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اس وقت کوئی اطلاع نہیں ہے کہ حملہ آور کا کسی دہشت گرد تنظیم سے تعلق ہے۔ ہم اب بھی متاثرین کی شناخت کی چھان بین کر رہے ہیں، تاہم حملہ آور کو مار دیا گیا ہے۔‘
2/2 At the moment, we can confirm more than 15 dead and dozens injured. We have no information at this time that the perpetrator is linked to any terrorist organization. We are still investigating the identity of the victims. However, the assailant has been eliminated.
— Policie ČR (@PolicieCZ) December 21, 2023
پولیس چیف مارٹن ووندراسیک نے فائرنگ کے بعد صحافیوں کو بتایا تھا کہ ’تمام متاثرین عمارت کے اندر مارے گئے۔‘
چیک میڈیا کا کہنا ہے کہ ’مارے جانے والوں میں کم از کم کچھ مسلح شخص کے ساتھی طالب علم تھے۔‘
ادھر نیدرلینڈز کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’زخمیوں میں ایک ڈچ شہری بھی شامل ہے۔‘
مارٹن ووندراسیک نے مزید کہا کہ ’مسلح شخص کے پاس ہتھیاروں اور گولہ بارود کا ایک بہت بڑا ذخیرہ تھا اور پولیس کی فوری کارروائی نے کہیں زیادہ سنگین قتل عام کو روک دیا۔‘
اس واقعے کے بعد حکومت نے 23 دسمبر کو ایک دن کے قومی سوگ کا اعلان کیا ہے، جس کے دوران سرکاری عمارتوں پر پرچم سرنگوں رہیں گے۔
حکام کی جانب سے لاپتہ طالب علموں کی فہرست سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی جبکہ فائرنگ سے محفوظ افراد نے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مطلع کرنے کے لیے سماجی میڈیا پر پیغامات پوسٹ کیے۔
مارٹن ووندراسیک نے کہا کہ ’پولیس نے فائرنگ سے قبل اس شخص کی تلاش شروع کردی تھی کیونکہ اس کے والد پراگ کے مغرب میں ہوسٹون گاؤں میں مردہ پائے گئے تھے۔‘
پولیس سربراہ نے کہا کہ ’حملہ آور یہ کہتے ہوئے پراگ کے لیے روانہ ہوا کہ وہ خود کو مارنا چاہتا ہے۔‘
اس سے قبل پولیس کا کہنا تھا کہ ’مسلح شخص نے اپنے والد کو قتل کیا تھا۔‘
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ’مقامی وقت کے مطابق ایک بجکر 59 منٹ پر ہمیں فائرنگ کے بارے میں پہلی اطلاع ملی۔ جس کے بعد ہمارا ریپڈ رسپانس یونٹ 12 منٹ کے اندر جائے وقوعہ پر پہنچ گیا۔‘
ان کے مطابق: ’مقامی وقت کے مطابق دو بجکر 20 منٹ پر اہلکاروں نے ہمیں حملہ آور کی ساکن لاش کے بارے میں بتایا۔‘
سوشل میڈیا کی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’حملہ آور روس میں پیش آنے والے اسی طرح کے ایک واقعے سے متاثر تھا۔‘
پولیس چیف نے کہا کہ ’پولیس کا خیال ہے کہ اسی مسلح شخص نے 15 دسمبر کو پراگ کے مشرقی مضافات میں ایک جنگل میں چہل قدمی کے دوران ایک نوجوان اور اس کی دو ماہ کی بیٹی کو بھی قتل کیا تھا۔‘
پراگ کو ہلا کر رکھ دینے والے اس قتل کی پولیس تحقیقات اس وقت تک تعطل کا شکار رہیں جب تک ہوسٹون میں ملنے والے شواہد نے مسلح شخص کو جرم سے منسلک نہیں کیا۔
ووندراسیک نے کہا کہ ’جمعرات کی اس کارروائی میں کوئی پولیس اہلکار زخمی نہیں ہوا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعرات کو چیک جمہوریہ کے صدر پیٹر پاویل نے اس واقعے پر کہا ہے کہ وہ اس تشدد پر صدمے میں ہیں اور انہوں نے مرنے والوں کے اہل خانہ اور رشتہ داروں سے گہرے افسوس اور دلی تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
جبکہ جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم پیٹر فیالا نے کہا کہ ’واحد مسلح شخص ۔ زیادہ تر نوجوانوں کی زندگیاں ضائع ہوئیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس ہولناک حرکت کا کوئی جواز نہیں ہے۔‘
سال 1993 میں جمہوریہ چیک کے ایک آزاد ریاست کے طور پر ابھرنے کے بعد سے اب تک اس بدترین فائرنگ کے واقعے پر دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے حمایت کے پیغامات بھیجے گئے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی فائرنگ کے اس واقعے پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرن جین پیئر نے صحافیوں کو بتایا کہ ’صدر اور خاتون اول اپنے پیاروں کو کھونے والے خاندانوں اور متاثر ہونے والے تمام افراد کے لیے دعا گو ہیں۔‘
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے بھی چیک عوام کے ساتھ ’یکجہتی‘کا اظہار کیا ہے جبکہ یورپی یونین کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیئن اور یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی سمیت دیگر یورپی رہنماؤں نے افسوس کا اظہار کیا۔
اگرچہ جمہوریہ چیک میں بڑے پیمانے پر بندوق کا تشدد غیر معمولی ہے لیکن حالیہ برسوں میں ایسے کچھ واقعات نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
سال 2015 میں ایک 63 سالہ شخص نے جنوب مشرقی شہر اہرسکی برود کے ایک ریستوراں میں خود کو گولی مار کر قتل کرنے سے پہلے سات مردوں اور ایک خاتون کو قتل کر دیا تھا۔
سنہ 2019 میں مشرقی شہر اوسٹراوا کے ایک ہسپتال کے ویٹنگ روم میں ایک شخص نے چھ افراد کو قتل کر دیا تھا۔ حملے کے تقریباً تین گھنٹے بعد اس شخص نے خود کو گولی مار کر خودکشی کر لی تھی۔