میو ہسپتال انجیکشن ری ایکشن کیس، تین نرسوں کو شوکاز جاری ہونے پر احتجاج

میو ہسپتال میں نو مارچ کو دو مریضوں کی اموات اور 14 کے متاثر ہونے کے بعد تین نرسوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے جانے کے خلاف نرسوں نے منگل کی رات احتجاج کیا اور اس کا دائرہ کار وسیع کرنے کا عندیہ بھی دیا۔

لاہور میں واقع میو ہسپتال کا بیرونی منظر (میو ہسپتال ویب سائٹ)

لاہور میں واقع میو ہسپتال میں انجیکشن کے ردعمل سے نو مارچ کو دو مریضوں کی اموات اور 14 کے متاثر ہونے کے بعد تین نرسوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے جانے کے خلاف نرسوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے منگل کی رات احتجاج کیا اور اس کا دائرہ کار وسیع کرنے کا عندیہ بھی دیا۔

نرسوں کو جاری کیے گئے شو کاز نوٹس کے مطابق ان کے خلاف پنجاب ایمپلائز ایفیشینسی، ڈسپلن اینڈ اکاؤنٹیبلٹی (پیڈا) ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کر دی گئی ہے اور انہیں عہدوں سے ہٹا کر سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

شوکاز نوٹس کے مطابق محکمہ صحت یہ کارروائی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں کر رہا ہے، جو ہسپتال کے چیسٹ سرجیکل وارڈ میں واقعے کے بعد تشکیل دی گئی تھی۔

نوٹیفکیشن میں نرسوں پر الزام لگایا گیا کہ ’آپ کی طرف سے پاؤڈر انجیکشن (بنانے، اسے حل کرنے اور مریض کولگانے کے طریقے) لگاتے ہوئے غفلت اور بدعنوانی کا ارتکاب ہوا۔ آپ کی طرف سے پاؤڈر انجیکشن (سیفٹریاکسون) کے خراب ڈسپنسنگ طریقوں کی وجہ سے میو ہسپتال لاہور کے چیسٹ سرجیکل وارڈ میں 16 مریضوں میں انجیکشن کا رد عمل سامنے آیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے ینگ نرسز ایسوسی ایشن کی سابقہ جنرل سیکرٹری اور امیدوار برائے رکن پنجاب نرسنگ اینڈ مڈ وائفری کونسل مقدس تسنیم کہتی ہیں کہ ’یہ غلط بیانیہ بنایا جا رہا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ نجی فارما سوٹیکل کمپنی وزیر صحت اور بیورو کریسی کے کچھ لوگوں کے قریبی ساتھیوں کی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ عرصہ پہلے خانیوال میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہوا تھا، جس میں تین بچوں کی جانیں گئی تھیں، وہاں بھی دوا اسی فارما سوٹیکل کمپنی کی تھی۔ ایسا ہی ایک واقعہ کمالیہ میں بھی ہوا اور ملتان میں بھی۔ یہاں تک کہ ہماری اپنی کچھ نرسز کو بھی ان انجیکشنز کا ردعمل آیا اور ہم نے یہ کیسز اعلیٰ حکام کو رپورٹ بھی کیے لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ حکومت نے اس وقت بھی اس کمپنی کو بند نہیں کیا، اب بھی وہی کمپنی ہے اور وہی انجیکشن ہے، جس کی وجہ سے دو لوگوں کی جان چلی گئی اور اس سے 16 افراد متاثر ہوئے، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے۔‘

مقدس کا کہنا تھا ہر مریض کا انجیکشن الگ بنتا ہے اور اسے ڈسٹل واٹر میں بنایا گیا لیکن یہ بیانیہ بنانا غلط ہے کہ انجیکشن کو کسی ڈرپ میں بنایا گیا، ایسا نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا: ’ہمارا سوال ہے کہ اس فارما سوٹیکل کمپنی کو ڈرگ ٹیسٹنگ لیب اپروول کس نے دی، انہیں پکڑا جائے۔ نرسیں صرف وہ ادویات دیتی ہیں جو ڈاکٹر لکھ کر دیتے ہیں اور جو ہسپتال میں موجود ہوتی ہیں۔‘

مقدس کا کہنا تھا کہ ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے کہ جو بھی معاملہ ہو، اس کا ملبہ نرس پر ڈال دیا جائے کیونکہ وہ طاقت ور نہیں ہے۔ ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ عوام میں ہمارے خلاف نفرت پھیلانی بند کریں۔ نرس کا اور مریض کا اعتماد کا رشتہ خراب کیا جا رہا ہے، ہم اس کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ہم احتجاج کریں گے، یہ ہمارا آئینی حق ہے کہ ہم حقائق کو عوام، میڈیا اور ارباب اختیار کے سامنے لائیں۔ نوکریاں رہیں یا نہ رہیں وہ الگ بات ہے لیکن کم سے کم ہسپتالوں کے اندر پہنچنے والی غیر معیاری ادویات کے خلاف کچھ تو ہونا چاہیے اور اگر ہماری نہیں سنی جاتی تو ہم حق بجانب ہیں کہ ہم اپنے احتجاج کا دائرہ کار وسیع کریں۔‘

انجیکشن کے ردعمل کے نتیجے میں جان سے جانے والے دو مریضوں کے پوسٹ مارٹم کے حوالے سے سی ای او میو ہسپتال پروفیسر ڈاکٹر ہارون حامد نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا: ’ان دونوں کے لواحقین کو ہم نے پوسٹ مارٹم کا کہا تھا لیکن انہوں نے پوسٹ مارٹم کروانے سے تحریری طور پر انکار کر دیا، جس کی وجہ سے پوسٹ مارٹم نہیں کیا گیا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ فارما سوٹیکل کمپنی کے خلاف ایکشن لینے کا کام محکمہ صحت کا ہے اور ہم نے محکمہ صحت اور ڈائریکٹر جنرل فارمیسی سروسز کو اسی رات اطلاع کر دی تھی اور انجیکشن کے نمونے اور سٹاک ان کے حوالے کر دیا تھا۔

نرسز کے احتجاج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ رات ہم نے ان کے تحفظات سنے تھے اور سیکرٹری ہیلتھ سے ان کی بدھ کو ملاقات تھی۔ سیکرٹری صحت نے مجھے یہ یقین دلایا تھا کہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی لیکن اس کیس کی مزید تحقیقات تو ہونی ہیں۔‘

محکمہ صحت پنجاب کیا کہتا ہے؟

وزیر برائے محکمہ صحت پنجاب خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے متعلق میو ہسپتال کی انتظامیہ، نرسوں کی نمائندہ، ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری کی ٹیم نے مختلف پہلوؤں سے حقائق اکٹھے کیے ہیں۔

تحقیقاتی کمیٹی نے واقعے کی تمام پہلوؤں سے مکمل چھان بین کی ہے اور تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں نرسوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی ہے۔

میو ہسپتال میں انجیکشن سے مریضوں کی حالت غیر ہونے اور دو مریضوں کی اموات کے بعد ڈائریکٹوریٹ ڈرگ کنٹرول پنجاب (ڈی ڈی سی پی) نے بھی پنجاب بھر میں نجی فارما کمپنی کے انجیکشن سیفٹریاکسون (Ceftriaxone)کے استعمال کو فوری روکنے کا حکم دیا ہے۔

ڈی ڈی سی پی نے صوبے بھر کی فارمیسیز کو ہدایت جاری کی ہے کہ انجیکشن ویکسا اور محلول نیوٹرولائن کا استعمال روک دیا جائے کیونکہ اس انجیکشن کا استعمال مشتبہ طور پر صحت کے لیے خطرہ ہے، اس لیے ان ادویات کے ٹیسٹوں کی رپورٹس آںے تک ان کا استعمال روک دیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت