کینیا کی ہائی کورٹ نے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل میں ملوث افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد نہ ہونے اور حکومت کے سٹے لینے کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
پاکستانی صحافی ارشد شریف کے پولیس کے ہاتھوں قتل میں ملوث اہلکاروں کو ہائی کورٹ نے گذشتہ برس سزائیں سنائی تھیں۔
تاہم فیصلے پر تاحال عمل نہ ہونے اور کینیا کی حکومت کی جانب سے حکم امتناعی لینے پر ارشد کی اہلیہ جویریہ صدیق نے درخواست دائر کی تھی۔
گذشتہ برس آٹھ جولائی کو ارشد شریف قتل کیس میں کینیا کی عدالت نے ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر ملوث دو پولیس افسران کے خلاف فوجداری کارروائی کا حکم دیا تھا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ ’آئین ہر شخص کو معلومات کی فراہمی کا حق دیتا ہے اور درخواست گزار کا بنیادی حق ہے۔ قتل کے بعد اب تک کی تفتیش کی تفصیل بھی درخواست گزار کو مہیا نہیں کی گئی ہیں۔‘
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گذشتہ برس فیصلہ آنے کے باوجود عمل درآمد نہیں ہوا بلکہ کینیا کی حکومت نے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کے بجائے ان کو بچانے کے لیے اپیل دائر کی تو عدالت نے فیصلے پر عمل درآمد روک دیا۔‘
جویریہ صدیق کا کہنا ہے کہ ’پھر ہم نے سٹے آرڈر ختم کرنے اور فیصلے پر جلد عمل درآمد کے لیے اپیل دائر کی تھی۔ عدالت نے دونوں فریقین کو تحریری گزارشات جمع کروانے کا حکم دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ مزید بتاتی ہیں کہ ’ہم نے اور کینیا حکومت نے تحریری گزارشات عدالت میں جمع کروا دی ہیں اب آج عدالت نے اپیلوں پر فیصلہ مخفوظ کر لیا ہے جو 21 جون کو سنایا جائے گا۔‘
ارشد شریف کی اہلیہ نے کینیا کی پولیس کے خلاف کیا درخواست دی تھی؟
سال 2022 میں پاکستانی اینکر و صحافی ارشد شریف کا 23 اکتوبر کو کینیا میں قتل ہوا جس کے بعد کینیا کی پولیس نے اعتراف کیا تھا کہ غلط شناخت کے باعث ارشد شریف کی گاڑی پولیس کی گولیوں کی زد میں آئی۔
اس واقعے میں ملوث پولیس اہلکاروں کو حراست میں لے لیا گیا تھا، جنہیں بعد ازاں نوکری پر بحال کر دیا گیا۔
اہلیہ ارشد شریف، جویریہ صدیق نے کینیا کے ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف درخواست کینیا کی عدالت میں دائر کی تھی۔ اس کیس میں پانچ ملزمان کو اقدام قتل کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
درخواست گزار کے وکیل نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’جس گاڑی کا پولیس پیچھا کر رہی تھی اس گاڑی میں ارشد شریف موجود ہی نہیں تھے اور یہ سب معلومات ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس لیے ارشد شریف کی گاڑی پر گولی چلانا پولیس کا مجرمانہ فعل ہے۔‘