امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے طالبان سے امن مذاکرات معطل کرنے کے اعلان کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ حقیقی امن اُسی وقت ممکن ہے جب طالبان تشدد کا راستہ ترک کر دیں اور براہ راست افغان حکومت سے بات چیت کریں۔
اتوار کو صدارتی محل سے جاری ہونے والے بیان میں اشرف غنی نے کہا ’پائیدار امن تب ہی ممکن ہے جب طالبان جنگ بندی کے لیے راضی ہو جائیں گے‘۔
انہوں نے کہا امن کے لیے افغانستان اپنے اتحادیوں کی مخلصانہ کوششوں پر ان کا مشکور ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا افغان حکومت پائیدار امن کے لیے امریکہ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
اس سے پہلے ٹرمپ نے امن مذاکرات معطل کرنے کا اچانک اعلان کرتے ہوئے دعوی کیا کہ وہ کیمپ ڈیوڈ میں طالبان رہنماؤں کے ساتھ ایک ’خفیہ ملاقات‘ کرنے والے تھے۔
ٹرمپ نے متعدد ٹوئٹس میں تفصیل سے بتایا کہ وہ اتوار کو میری لینڈ میں صدارتی تفریح گاہ پر افغان صدر اور طالبان رہنماؤں سے ملنے والے تھے۔
ٹرمپ کے مطابق تاہم، رواں ہفتے کابل میں کار بم کے نتیجے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 ہلاکتوں اور طالبان کی جانب سے حملے کی ذمہ داری قبول کیے جانے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ مذاکرات ختم کیے جائیں۔
ٹرمپ نے لکھا ’کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ طالبان کے اہم رہنما اور افغان صدر اتوار کو کیمپ ڈیوڈ میں مجھ سے علیحدہ علیحدہ خفیہ ملاقاتیں کرنے والے تھے‘۔
انہوں نے ٹویٹ میں مزید لکھا: وہ (طالبان) آج رات امریکہ آنے والے تھے، لیکن بدقسمتی سے انہوں نے مذاکرات میں فائدہ اٹھانے کی کوشش میں کابل میں حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
....an attack in Kabul that killed one of our great great soldiers, and 11 other people. I immediately cancelled the meeting and called off peace negotiations. What kind of people would kill so many in order to seemingly strengthen their bargaining position? They didn’t, they....
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) September 7, 2019
’میں نے فوراً ملاقات منسوخ کرتے ہوئے مذاکرات معطل کر دیے ہیں۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو بظاہر سودے بازی میں اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کی خاطر اتنے لوگوں کو ہلاک کر دیں؟‘
صدر کا کہنا تھا: اگر یہ (طالبان) انتہائی اہم امن مذاکرات کے دوران جنگ بندی پر متفق نہیں ہو سکتے اور 12 معصوم لوگوں کو جان سے مار دیں تو شاید ان کے پاس ایک معنی خیز معاہدے کے لیے مذاکرات کا اختیار ہی نہیں۔ یہ اور کتنی دہائیوں تک لڑنا چاہتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹرمپ کا مذاکرات معطل کرنے کا فیصلہ ایک ایسے وقت پر سامنے آیا جب کچھ دن پہلے افغانستان میں امن کے لیے امریکہ کے خصوصی مذاکرات کار زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ فریقین کے درمیان امن معاہدہ تقریباً طے پا چکا ہے۔
معاہدے کے مسودے کے مطابق معاہدے پر فریقین کے دستخط کے بعد امریکی فوجی 135 دنوں کے اندر اندر افغانستان میں اپنے پانچ فوجی اڈے چھوڑ دیں گے۔
جواب میں طالبان سے امید کی جا رہی تھی کہ وہ دہشت گردی کی عالمی کارروائیوں کے لیے اپنے ملک کو ہرگز استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
تاہم، حالیہ ہفتوں میں طالبان نے امریکی مذاکرات کاروں سے بات چیت کے دوران افغانستان بھر میں متعدد ہولناک حملے کیے۔
خیال کیا جا رہا ہے طالبان ان حملوں کے ذریعے مذاکرات میں فریقین کو دباؤ میں لانا چاہتے تھے۔
اضافی رپوٹنگ خبر رساں ادارے