پاکستان کے صوبہ سندھ کی حکومت نے فلموں، ڈراموں میں کام کرنے والے بچوں کے لیے ایک خصوصی آرڈیننس تیار کیا ہے جس کے تحت بچوں سے تدریسی اوقات میں کام نہیں لیا جاسکے گا۔
سندھ چلڈرن ڈراما انڈسٹری آرڈینینس 2024 کے مطابق 18 سال سے کم عمر کے فنکاروں سے رات دیر تک بھی کام نہیں لیا جاسکے گا، ان کی حفاظت کو بھی یقینی بنایا جائے گا سکے گا اور کسی بھی شکایت کی صورت میں ایک کمیٹی اس پر کارروائی کرسکے گی۔
سندھ کے صوبائی وزیرِ کھیل و ثقافت جنید علی شاہ نے اس معاملے پر گفتگو کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نہ صرف سکول کے اوقات میں بچوں سے کام نہیں لیا جاسکتا، بلکہ رات دیر تک بھی ان کے ساتھ عکس بندی نہیں کی جاسکے گی۔
’یہ قانون، ہر قسم کی پرفارمنس پر لاگو ہوگا جس میں، ڈراما، فلم، تھیٹر، اشتہارات، سب شامل ہیں کیوں کہ ہمیں بچوں کو بگاڑنا نہیں سدھارنا ہے اور تعلیم چھوڑ کر کیا جانا والا کوئی بھی کام اہم نہیں ہوتا۔‘
جنید علی شاہ نے بتایا کہ اگرچہ ان کے پاس اس ضمن میں کوئی باقاعدہ شکایت نہیں آئی تھی لیکن کیوں کہ وہ خود رمضان کی نشریات میں دیکھ چکے ہیں کہ وہاں کس طرح بچوں کو لایا جاتا ہے اور دیر تک بٹھایا جاتا ہے اس لیے انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔
’میں نے اس سلسلے میں عدنان صدیقی، ہمایوں سعید اور عرفان ملک سے مشاورت کی تھی اور ان کے تعاون سے ہی یہ ممکن ہوا ہے، خاص کر عدنان صدیقی نے بہت ہی زیادہ وقت دیا اور مدد کی۔‘
اس آرڈیننس پر عمل درآمد کے سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ محکمہ ثقافت کے ایک سیکریٹری کی سربراہی میں ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس میں سندھ چائلڈ پروٹییکشن بیورو اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھی نمائندگی ہوگی تاکہ کسی بھی شکایت آنے کی صورت میں اس پر کارروائی کی جاسکے۔
’عمل درآمد کے لیے آگاہی بہت ضروری ہے، کیوں کہ جب لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوگا قانون کیا ہے تو وہ اس پر عمل کیسے کریں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ اکثر فنکار مالی مشکلات کا شکار رہتے ہیں اور حکومت سے مدد مانگتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اگر ان بچوں میں سے کچھ فنکار بنتے بھی ہیں تو ان کی تعلیم ہو تاکہ وہ روزگار کما سکیں کیوں کہ ہر ایک تو سٹار بن کر بہت پیسے نہیں کماتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ابھی اس آرڈیننس میں جن جگہوں یا علاقوں میں شوٹنگ ہورہی ہے، وہاں بھی بچوں کی حفاظت کو مد نظر رکھے جانے کی شق شامل کرنی ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ گورنر کے آتے ہی اس پر دستخط ہوجائیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنید علی شاہ نے مزید بتایا کہ اس وقت سندھ اسمبلی موجود نہیں ہے، اس لیے آرڈیننس لایا جارہا ہے، اب آںے والی اسمبلی کا کام ہے کہ وہ منتخب ہونے کے 90 دن کے اندر اندر یہ بِل پاس کرکے اسے قانون بنا دے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ 10 روز میں یہ آرڈیننس لاگو کردیا جائے گا، جس کے بعد اس کی آگاہی مہم چلائی جائے گی۔
اس قانون کے بارے میں اس صنعت سے وابستہ افراد کی رائے معلوم کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے جب ہدایت کار ندیم بیگ سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس تجویز کو سراہتے ہوئے لازمی قرار دیا ہے۔
ندیم بیگ ’میرے پاس تم ہو‘ جیسے مقبول ڈرامے اور فلموں کی ہدایت کاری کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت اچھی بات ہے کہ اس پر قانون سازی ہوئی ہے اور اسے ہر شخص کے انفرادی انداز پر نہیں چھوڑ دیا گیا۔ یہ ایک طرح سے چائلڈ لیبر میں شمار ہوتا ہے کہ بچوں سے چھٹی کروا کر ان سے کام لیا جائے، اس لیے حکومت نے بہت ہی اچھا قدم اٹھایا ہے۔‘
ندیم بیگ نے کہا کہ جہاں تک ان کی اپنی بات ہے، وہ تو پہلے ہی اس بات کا بہت خیال رکھتے ہیں ’جیسے شیث (ڈراما میرے پاس تم ہو کا رومی) جب ہمارے ساتھ کام کر رہا تھا تو وہ سکول کے بعد ہی آتا تھا اور وہ تو اپنا ہوم ورک بھی سیٹ پر ہی کرتا تھا لیکن ہر فلم یا ڈرامے کے سیٹ پر ایسا نہیں ہوتا، اس لیے قانون ضروری تھا۔‘
ندیم بیگ نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ بچوں کی حفاظت بلکہ تمام فنکاروں کی حفاظت کے لیے جہاں شوٹنگ ہو رہی ہو، وہاں علاقے کے تھانے سے نفری تعینات کی جائے کیوں کہ چند ناخوشگوار واقعات ہوچکے ہیں۔
ڈراما میرے پاس تم ہو کے رومی یا شیث سجاد گُل سے جب انڈیپینڈںٹ اردو نے رابطہ کرکے پوچھا کہ وہ بطور فنکار کیا کہتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ سکول کے وقت کام نہ ہونا بہت فائدے مند ہوتا ہے کیوں کہ پھر پڑھائی بھی درست طریقے سے ہوجاتی ہے اور امتحانات بھی ٹھیک سے دے دیے جاتے ہیں۔
رات دیر تک کام کرنے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کام صبح جلد شروع ہوا ہے اور رات دیر تک ہو رہا ہو، پھر تکلیف ہوتی ہے، لیکن اگر کام دیر سے ہی شروع ہوا ہو، تو پھر رات دیر تک کا مسئلہ نہیں ہوتا۔
اس بارے میں شیث کے والد سجاد گل المعروف ساجی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر مسائل دیکھیں تو سکول کے وقت میں شوٹنگ کا مسئلہ تو ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ، اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ سالانہ امتحانات کے زمانے میں بچوں کے سین رکھے جاتے ہیں جو ان کے لیے شدید دباؤ کا باعث ہوتے ہیں۔
’ڈراموں کی شوٹ پر تو پھر بھی خیال کرلیا جاتا ہے، لیکن جب اشتہارات کی شوٹنگ ہوتی ہے تو وہ ایک ہی دن میں سارا کام ختم کرنے کے چکر میں اکثر 24 گھنٹے کام کرواتے ہیں۔ ایسے میں جو ایکسٹرا کے طور پر بچے آئے ہوئے ہوتے ہیں، ان کا تو برا حال ہو جاتا ہے کہ ایک سین کے لیے پورا دن بٹھایا جاتا ہے۔‘
ساجی نے بتایا کہ جو اسسٹنٹ یا ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر ہوتے ہیں، وہ بچوں کے آرام کا خیال نہیں کرتے، بلکہ بڑے ناموں کے کام کو جلدی جلدی ختم کرنے کے چکر میں بچے کو تو نظر انداز کردیتے ہیں۔
’بچے تو عام طور پر چھوٹے کرداروں ہی میں ہوتے ہیں، تو انہیں طویل انتظار کرایا جاتا ہے جس سے وہ بہت زیادہ تھک جاتے ہیں۔‘
ساجی نے بتایا کہ میرے پاس تم ہو میں تو ندیم بیگ نے شیث کا کافی خیال رکھا تھا، اس کے لیے ایک کمرا الگ رکھا تھا جہاں وہ سو سکتا تھا، لیکن اکثر سیٹ پر بچوں کا خیال نہیں رکھا جاتا اس لیے یہ قانون بہت اہم ہے جس سے بچوں کے حقوق کا تخفظ ہوگا۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔